Maktaba Wahhabi

58 - 382
کی بیٹی کا معاملہ بھی اسی طرح ہوا۔ نیز یہ بات بھی مشہور ہے کہ عبد اللہ بن عمرو باپ بیٹے کی عمر کا تفاوت بارہ سال کا تھا۔[1]اور صنعانی نے تیرہ سال ذکر کیے ہیں۔[2] فقیہ ابن رشد فرماتے ہیں: (( فَإِنَّہُمُ اتَّفَقُوا عَلَی أَنَّہُ یُحَرِّمُ لَبَنُ کُلِّ امْرَأَۃٍ بَالِغٍ وَغَیْرِبَالِغٍ۔))[3] سب کا اتفاق ہے کہ بالغ اور نابالغ عورت کے دودھ سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘ جملہ نصوص ذکر کرنے سے مقصود صرف یہ کہ قرائن و شواہد اس بات پر دالّ ہیں کہ نو دس سال کی عمر میں بچہ بالغ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے نو سال رخصتی کی عمر میں حضرت عائشہ بھی بالغہ ہوں۔ بصورتِ دیگر پھر بھی شریعت میں انعقادِ نکاح کا جواز موجود ہے۔ کما تقدم۔ لہٰذا تعجب و استغراب کی چنداں ضرورت نہیں ۔ واللّٰه یھدی من یشاء الی صراط مستقیم و ھو الھادی للصواب۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کی عمر بوقت رخصتی: سوال :ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کی عمر کے متعلق جو سات سال اور نو سال کا معاملہ ہے۔ وہ اسماء الرجال مشکوٰۃ پر حضرت اسماء اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاما کے متعلق عمر کا حساب ۱۷/۱۶ سال ہوتا ہے۔ اور ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ہی عمرِ عائشہ ہے اس میں بھی ۱۷/۱۶ کا حساب ثابت کیا گیاہے۔ طبیعت میں بڑی پریشانی کا سامنا ہے۔ اس کی بادلیل تسلی کریں مہربانی ہوگی۔ (سائل محمد خاں وٹو چک ،ضلع شیخوپورہ) (۱۲ جولائی ۱۹۹۶ء) جواب :صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا سے چھ سات سال کی عمر میں ہوا۔ اور نو سال کی عمر میں ماہِ شوال میں ان کی رخصتی ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔بعد میں ۵۸ ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ بقیع مدینہ نبویہ کے مشہور قبرستان میں دفن ہوئیں۔ بقول علامہ صنعانی، عمر میں اپنی علاتی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے دس سال چھوٹی تھیں۔(سبل السلام) عروہ رضی اللہ عنہ بن زبیر کا بیان ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر سو سال تھی۔ اسی اثناء میں نہ دانت گرے اور نہ عقل میں فرق آنے پایا۔ ’’الاصابہ‘‘ (۴/۳۲۵) تاریخی واقعات سے ظاہر ہے کہ نو سال کی بچی بالغ ہوسکتی ہے۔ بعض فقہائِ امت نے حمل کے لیے بچی کی اقل عمر نو سال بیان کی ہے۔ چنانچہ ’’المجالسہ‘‘ دینوری میں ہے:
Flag Counter