Maktaba Wahhabi

381 - 382
سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بحالتِ نفاس عورت نکاح کر سکتی ہے۔ البتہ جماع بحالت پاکیزگی ہونا شرط ہے۔ دلیل پہلے گزر چکی ہے۔ خلع کی صورت میں عدت تین حیض ہے یا ایک حیض؟ سوال :ہمارے ہاں خلع کی عدت کے بارے میں نزاع ہے۔ کچھ لوگ اس کو طلاق پر محمول کرکے تین حیض بتاتے ہیں اور بعض فسخ نکاح کہہ کر ایک حیض جو لوگ تین حیض کہتے ہیں وہ ابوداؤد، اور ترمذی اور نسائی کی روایات کو ( جن میں ایک حیض کا ذکر ہے) ضعیف کہتے ہیں۔ آپ مہربانی فرما کر ان روایات کی صحت اور سقم کے بارے میں وضاحت فرما دیجیے تاکہ ہمارا نزاع ختم ہو سکے۔ یہ مسئلہ چند ایک علمائے اہلحدیث میں اختلاف کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ (عبدالخالق بھٹی چک۸۱ شمالی تحصیل و ضلع سرگودھا) جواب : مختلعہ کی عدت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا نظریہ ہے طلاق کی طرح عدت تین حیض ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ عدت صرف ایک حیض ہے۔ اوّل الذکر نے خلع کو طلاق قرار دے کر طلاق کے احکام اس پر منطبق کرنے کی سعی کی ہے جب کہ امر ِ واقعہ یہ ہے کہ خلع کے بہت سے مسائل کئی ایک اعتبار سے طلاق سے مختلف ہیں۔ مثلاً: ٭ حالت ِ حیض میں طلاق دینی ناجائز ہے۔ درانحالیکہ خلع متفقہ طور پر جائز ہے۔ ٭ پھر نصّ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ خلع میں رجوع جائز نہیں: (( خُذِ الَّذِی لَہَا عَلَیْکَ وَخَلِّ سَبِیلَہَا)) [1] جب کہ طلاق کی صورت میں بلا رضا و رغبتِ زوجہ عدت کے اندر خاوند رجوع کا زیادہ حق دار ہے۔ ﴿وَ بُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا﴾ (البقرۃ:۲۲۸) لہٰذا نصوص اس بات کے مؤید ہیں کہ خلع کی عدت صرف ایک حیض ہے۔ چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں: ۱۔(( فَأَمَرَہَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَرَبَّصَ حَیْضَۃً وَاحِدَۃً، فَتَلْحَقَ بِأَہْلِہَا۔))[2] ’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمیلہ بنت عبد اللہ کو حکم دیا کہ اپنے اہل میں چلی جائے اور ایک حیض انتظار کرے۔‘‘
Flag Counter