Maktaba Wahhabi

350 - 382
خاوند اپنی بیوی کو ماں ، اور بیوی اپنے خاوند کو بیٹا یا باپ کہہ دے تو کیا حکم ہے؟ سوال :اگر خاوند اپنی بیوی کو ماں کہہ دے یا بیوی اپنے خاوند کو بیٹا یا اباجان کہہ دے تو اس صورت میں دونوں کے لیے کیا حکم ہے اگر اس صورت میں کوئی کفارہ دینا پڑتا ہے تو کیا کفارہ دینے سے پہلے دونوں آپس میں بات کر سکتے ہیں؟ (ایک اللہ کابندہ) ۱۳ ستمبر ۱۹۹۱ء جواب :شوہر اگر اپنی رفیقہ ٔ حیات بیوی کو ماں کہہ دے تو کفارۂ ظہار واجب ہو جاتا ہے جس کی وضاحت ’’سورۃ المجادلہ‘‘ پارہ ۲۸ کے شروع میں موجود ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات سے قبل غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ہو تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنا، یہ بھی قبل از مسیس ہے۔ اگرمُظَاہِرکو اس کی استطاعت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو بلا قید عدم مسیس ہے اور اگر بیوی خاوند کو بیٹا یا ابا جان کہہ دے اس پر کفارہ تو واجب نہیں ہوگا، تاہم ایسے الفاظ کے استعمال سے احتیاط ضروری ہے۔ بات سے مقصود اگر ہم کلام ہونا ہے یہ تو جائز ہے اور اگر ملاپ ہو تو وہ کفارہ کی ادائیگی کے بعد ہو گا۔ عدالتی یا پنچائتی طلاق عدالتی طلاق کا کیا حکم ہے؟ سوال :عدالتی طلاق کا کیا حکم ہے؟ (سائل حبیب اللہ) جواب :ظاہر ہے بذریعہ عدالت جو طلاق ہو گی، زَوجین کے نزاع اور اختلاف کی بنا پر ہی ہو گی۔ مسلمان جج کا فیصلہ بموجب آیت نمبر ۳۵، ’’سورۃ النساء‘‘ موثر ہوگا۔ یاد رہے اس کے بعد شوہر کا حق ِ رجوع بھی معدوم ہو جاتاہے اس لیے کہ اس طلاق کا نام طلاق بائن ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’فتح الباری‘‘(ج:۹،ص:۴۰۳) ، ’’احکام القرآن‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی(ج:۱،ص:۴۲۶) اور ’’نیل المرام‘‘ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ زیر آیت مشارٌ الیھا۔ صرف بیوی کے بیان پر عدالت کا تنسیخ نکاح کا فیصلہ دینے کی شرعی حیثیت: سوال :مختصراً بیان کیا گیا ۔ درخواست دہندہ نے بیان کیا کہ مدعا علیہ کے ساتھ مدعیہ کی شادی ۹۔۷۔۲۰ کو ہوئی۔ اور اس ازدواجی بندھن کے دوران دو بچے پیدا ہوئے۔ لیکن مدعی علیہ کا چال چلن درست نہیں رہا۔ وہ نشے کا بھی عادی تھااور مدعیہ کے ساتھ نازیبا سلوک کرتا تھا۔ ایک سال ہوا کہ مدعی علیہ ، مدعیہ کے والد کے گھر آیا جہاں وہ دونوں رہ
Flag Counter