نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اورایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنادیا۔ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں اس کے ذریعے سے ہدایت دیتے ہیں۔‘‘[1] ابو سعود رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿رُوْحًا﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ اس سے مراد قرآن کریم ہی ہے کیونکہ وہ دلوں کے لیے وہی درجہ رکھتا ہے جو جسموں میں روح کا ہے کیونکہ قرآن دلوں کو ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔‘‘[2] ﴿رُوْحًا﴾ پر تنوین بیان عظمت کے لیے ہے۔ اس کا مفہوم عظیم روح ہے۔[3] اس آیت کا مفہوم یہ ہے: ﴿وَکَذٰلِکَ﴾’’ اوراسی طرح‘‘ جب ہم نے آپ سے پہلے رسولوں کی طرف وحی کی تو﴿أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا﴾ ’’ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف ایک روح کی وحی کی۔‘‘ اوروہ قرآن عظیم ہے جس کا نام روح رکھاگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسموں کوزندگی بخشنے کے لیے ان میں روح پھونکی جاتی ہے، اسی طرح قرآن کریم وہ متاع عظیم ہے جو دلوں اورروحوں کو زندگی کی شادابی عطا کرتا ہے۔ قرآن کریم کی بدولت دین و دنیا کی بھلائیوں کوبھی جلا ملتی ہے کیونکہ اس میں خیر کثیر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول اوراپنے مومن بندوں پر احسان عظیم بھی ہے۔ اس میں ان کا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿مَاکُنْتَ تَدْرِی﴾ ’’اس کے نزول سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے‘‘ کہ ﴿مَا الْکِتَابُ وَلَاالْإِیْمَانُ﴾ ’’کتاب کیا ہے اورایمان کیا ہے؟‘‘ یعنی آپ کو سابقہ کتابوں کی خبروں کے بارے میں کوئی علم تھانہ ان پر آپ کا ایمان وعمل تھا۔ آسمانی شریعتوں اور قوانین ربانی کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے تھے بلکہ آپ ناخواندہ تھے ،لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا، پھرآپ کے پاس یہ روح آئی ﴿جَعَلْنَاہُ نَورًانَّھْدِی بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا﴾جسے ’’ہم |
Book Name | قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے |
Writer | فضیلۃ الشیخ محمود بن احمد الدوسری |
Publisher | مکتبہ دار السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر |
Volume | |
Number of Pages | 418 |
Introduction |