Maktaba Wahhabi

374 - 382
عورت شرعاً پہلے شوہر کی زوجیت میں ہی ہے۔ دوسرے سے فوراً تفریق کرا دینی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ﴿وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ﴾ (النساء: ۲۴) ’’اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں)‘‘ کیا عورت بھی ایلاء کر سکتی ہے؟ سوال :جس طرح آدمی ایک ماہ کے لیے قسم اٹھاتا ہے کہ عورت کے قریب نہیں جاؤں گا مگر قبل از ماہ وعدہ توڑ دیتا ہے اگر عورت بھی اس طرح بطورِ قسم کہہ دے تو کیا عورت کو بھی مذکورہ بالا غلطی کی شکل میں کفارہ ہے یا نہیں۔(سائل عطا ء اللہ شاہ بمقام بڑھے والا، چک نمبر ۱۰۲، ر، ب۔ ڈاکخانہ خاص تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد) ۹ اگست۱۹۹۱،ص:۸۰۵ جواب :شریعت اسلامیہ میں اِیلاء کا تعلق صرف زوج سے ہے۔ بیوی کی جہت سے نہیں۔ چنانچہ اہل شرع اِیلاء کی تعریف میں فرماتے ہیں: (( ہُوَ أَن یَّحْلِفَ الرَّجُلُ اَنْ لَا یَطَأَ زَوْجَتَہٗ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ)) [1] ’’یعنی ایلاء یہ ہے کہ آدمی قسم کھالے کہ مثلاً وہ چار ماہ تک بیوی سے مجامعت نہیں کرے گا۔‘‘ جب ایلاء میں عورت بااختیار ہی نہیں تو اس کی جانب کفارے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رجوع کے مسائل ایک دفعہ تین طلاق کے بعد عدت گزر جائے تو نیا نکاح ہوسکتا ہے ؟ سوال :ہمارے ایک قاری نے ہمیں یہ سوال میر پور آزاد کشمیر سے بھیجا ہے۔ ’’ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں ایک کاغذ پر تین بار طلاق دے دی۔ دو سال کا عرصہ گزر گیا اب وہ شخص رجوع کرنا چاہتا ہے۔ اس کی کیا صورت ہوگی۔ دونوں ابھی تک شادی نہیں کرسکے۔‘‘ (سائل محمد سلیم چوہدری)(۶ جولائی ۲۰۰۷ء) جواب :بالا صورت میں راجح مسلک کے مطابق زوجین میں علیحدگی طلاق رجعی کی صورت میں ہوئی ہے۔ لہٰذا بعد عدت دوبارہ نکاح کی اجازت ہے چناں چہ ’’صحیح بخاری‘‘ کے ترجمہ باب مَنْ قَالَ: لاَ نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ کے تحت حضرت معقل بن یسار کی ہمشیرہ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ قرآنی آیت ﴿ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضلُوْہُنَّ… الآیہ ﴾ کا سبب نزول یہی واقعہ ہے۔[2]
Flag Counter