Maktaba Wahhabi

188 - 382
سے یا پیسوں کی لالچ میں آکر یہ فعل انجام دے رہے ہیں۔(ڈاکٹر محمد رفیق،ضلع خانیوال) ( ۶ جولائی ۲۰۰۱ء) جواب : اصل بات یہ ہے کہ عامۃ الناس طلاق کے شرعی طریقہ کار سے غافل ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ بیک وقت اکٹھی تین طلاق دینے سے ہی طلاق قابل شمار ہوتی ہے۔ حالانکہ صورت حال اس طرح نہیں۔ شرعی طریقہ یہ ہے کہ بحالت پاکیزگی بلا جماع عورت کو صرف ایک طلاق دی جائے پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عورت کی عدت گزر جائے ، اب عورت آزاد ہے جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کرسکتی ہے۔ لیکن یار لوگ اپنے خاص ’’مقاصد ‘‘ کی تکمیل کے لیے اس امر کی وضاحت نہیں کرتے تاکہ ان کے حلالہ کی گاڑی چلتی رہے۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔ حالانکہ حلالے کا مرتکب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر لعنتی ہے۔[1] البتہ حلالے کو متعہ پر قیاس کرنا درست نہیں۔ متعہ اسلام میں پہلے حلال تھا ، بعد میں منسوخ ہو گیا۔جس طرح کہ’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فسخ کی تصریح کی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: حلالہ اسلام میں کبھی حلال نہیں ہوا لیکن چسکا باز لوگوں نے اس کے لیے باقاعدہ مرکز کھول رکھے ہیں۔ جہاں عصمتوں کو تار تار کرکے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایسے دغا باز لوگ عوام کی صحیح راہنمائی کبھی نہیں کریں گے۔ جس سے ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہو۔ اس موضوع کے بے شمار مضامین کئی مرتبہ اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔جس طرح منہ لگی کو چھوڑنا مشکل ہے وہی معاملہ ان لوگوں کا ہے۔ اللہ رب العزت سمجھ عطا فرمائے۔ نکاحِ شغار(وٹہ سٹہ) نکاح بٹہ کی شرعی حیثیت اور حل: سوال : تمام اہل خانہ کے شدیدانکار کے باوجود ’’محمد ادریس‘‘ کے والد صاحب نکاح بٹہ پر مصر رہے، حتی کہ غلط قسم کی دھمکیوں پہ آگئے، حالات کی نزاکت اور ممکنہ حد تک پہلو بچانے کے لیے ’’محمد ادریس ‘‘ نے محمد جمیل کے لیے جو شرائط پیش کیں، وہ طرفین کے قبول کرنے کے بعد شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ محمد ادریس نے اپنی ہمشیرہ کلثوم رحمن کا نکاح محمد جمیل سے ان شرائط پر قبول کیا۔ ۱۔محمد جمیل اپنی رہائش شہر ہارون آباد میں اپنا مکان خرید کر رکھے گا۔
Flag Counter