Maktaba Wahhabi

274 - 382
سے کہا کہ اب رضیہ بیگم تمہاری بیوی نہیں رہی کیونکہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ اب تمہارا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اس پر ملا مذکور نے جواب دیا کہ مسئلے مسائل ہم بھی جانتے ہیں چیئرمین یونین کونسل نے ملا مذکور کی تائید کرتے ہوئے لڑکی والوں سے کہا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی کیوں کہ ابھی طلاق کا ایک ہی نوٹس دیا گیا ہے۔ ابھی گنجائش باقی ہے لڑکی کو اس کے گھر بھیج دو۔ لہٰذا تم ابھی جہیز کا سامان واپس نہ لو۔ اور چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس فتوی ہے جس کی رُو سے لڑکی کو طلاق نہیں ہوئی اور ہم میاں بیوی میں صلح کرا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ چیئرمین یونین کونسل اور گاؤں والوں نے مجبور کیا کہ لڑکی کو اس کے گھر بھیج دیا جائے۔ اب لڑکی اپنے خاوند کے گھر چلی گئی ہے نکاح ثانی نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں علمائے کرام سے درخواست ہے کہ وہ شرعی نقطۂ نظر سے بتائیں کہ آیا لڑکی کو طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ کیا اب لڑکی اپنے خاوند کے گھر جا سکتی ہے یا نہیں؟ کیا اب لڑکی اس کے لیے شرعاً حلال ہے یا حرام؟ یاد رہے لڑکی کا دو ماہ کا بچہ ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے بچے کی پرورش کا حق ماں کو ہے یا باپ کو؟ (سائل ابو سعید اعوان بابا) (۱۷ ستمبر ۱۹۹۳ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں عورت پر طلاق رجعی واقع ہوئی تھی۔ عدت کے دوران خاوند نے چونکہ رجوع نہیں کیا اور وضع حمل کی صورت میں عدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب عورت خاوند کی زوجیت سے آزاد ہے جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر سابقہ شوہر سے عقد کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ تاہم اب بغیر نکاح کے جو خاوند کے پاس چلی گئی ہے۔ دراں حالیکہ وضع حمل کے بعد وہ اس کے نکاح سے نکل چکی تھی، بالکل غلط اور ناجائز ہے۔ نئے نکاح کے بغیر دونوں کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔ نیزشرعی طور پر کفالت کا حق ماں کو حاصل ہے جب تک دوسری جگہ نکاح نہ کرے۔ حالتِ حمل میں طلاق موثر ہے یا نہیں؟ سوال : ایک شخص نے لڑائی جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو ایک کاغذ پر لکھ دیا ۔ میں تجھے طلاق۔ طلاق۔ طلاق دیتا ہوں۔بیوی حاملہ بھی ہے۔ اس صورت میں شریعت کاکیا حکم ہے۔ کیا طلاق ہو گئی۔ اگر نہیں ہوئی تو کیا شریعت میں ایسے میاں بیوی کے لیے کوئی سزا یا ہر جانہ وغیرہ بھی ہے۔ ازراہ مہربانی فتوی دے کر عند اللہ مأجور ہوں۔ (محمد صالح خانیوال) (۲ جون ۱۹۹۵ء) جواب : حالت ِ حمل میں دی ہوئی طلاق بلا تردد واقع ہو جاتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے: ثُمَّ لِیُطَلِقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا۔[1]
Flag Counter