Maktaba Wahhabi

274 - 418
بلا، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک اللہ غالب‘ خوب حکمت والا ہے۔‘‘[1] کیا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے پرندوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے مظاہرے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے اژدہے میں تبدیل ہونے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نیک بندے سے ملاقات کی سرگزشت ،یا اس طرح کے دیگر قرآنی واقعات کی کوئی مثال انسانی قصوں میں مل سکتی ہے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں!قرآنی قصص میں جو خرق عادت، حیرت انگیز واقعات و حسنات اور معجزات وارد ہوئے ہیں، ان کا ظہورو صدور اس لیے ہوا تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ قدرت کاملہ دکھا دیں جس سے کائنات میں کوئی مخلوق بہرہ ور نہیں۔ یہ قصص انسانی نظر کی جلدبازی اور کوتاہ بینی کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کاملہ اجاگر کرتے ہیں اوریوں یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کامل ہے اور ماضی، حال اور مستقبل سمیت ہر زمانے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، مزید برآں قصص قرآنی یہ بھی بتاتے ہیں کہ کوئی سا بھی زمانہ ہو، خواہ قریب کا ہو یا بعید کا، اللہ تعالیٰ ہر گھڑی کا کامل علم غیب رکھتا ہے۔ اس حقیقت کے ادراک سے مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسا اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔[2] (11) انبیاء اور پسندیدہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان: قرآنی قصص کے مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان میں انبیاء اور صلحاء پر اللہ تعالیٰ کے جو زبردست انعامات بیان کیے گئے ہیں ان کا مومنوں کے دلوں پر بہت پاکیزہ اور پائیداراثر ہوتا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء، صلحاء اور دوستوں کے لیے بالکل کافی ہے اور وہ ان پر آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی
Flag Counter