Maktaba Wahhabi

275 - 382
یعنی ’’ طلاق طہر میں دے یا حمل میں۔‘‘ اور ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے راجح مسلک کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً [1] یعنی ’’عہد نبوی اور عہد ابوبکر اور دو سال خلافتِ عمر سے تین طلاقیں(مجلس واحد کی) ایک شمار ہوتی تھیں۔‘‘ لہٰذا عدت کے اندر مُطَلِّق رجوع کر سکتا ہے جو کہ وضع حمل ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق:۴) یعنی ’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل(یعنی بچہ جننے ) تک ہے اور عدت گزرنے کی صورت میں عقد جدید بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ بحالتِ حمل کون سی طلاق واقع ہوتی ہے ؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ سوال :زید نے اپنی منکوحہ اور اس کے وارثان کے مطالبہ پر یہ کلمات بذریعہ یونین کونسل لکھوا کر روانہ کرا دیے۔ کہ میں مسماۃ خدیجہ اور اس کے لواحقین کے پُرزور اٹل مطالبہ کے پیش نظر طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کرتا ہوں۔ مدتِ عدت کے تکمیل پر ہم فریقین اپنے مستقبل کے فیصلہ میں آزاد ہوں گے۔ صورتِ مذکورہ میں کونسی طلاق واقع ہوگی، اور اگر طرفین میں صلح کی صورت بنتی ہو تو دوبارہ زید خدیجہ سے کس طرح اپنا تعلق زوجیت قائم کر سکتا ہے ؟ یاد رہے کہ خدیجہ مذکورہ حاملہ بھی ہے۔ بیان فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ طلاق دیے ہوئے تقریباً ایک ماہ ۱۷ دن ہوئے ہیں۔(حافظ محمد منشاء لاہور) جواب :حالت ِ حمل میں واقع طلاق کا نام طلاق سُنِّی ہے۔ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں ہے: ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا[2] ’’یعنی پھر چاہیے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی بیوی کو بحالت ِ طہر یا حمل طلاق دے۔‘‘ اس میں عدت کے اندر رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿ وَ بُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا﴾ (البقرۃ:۲۲۸)
Flag Counter