Maktaba Wahhabi

290 - 382
بتایا کہ میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے جانے کی کوشش کی انکار پر میں نے طلاق کا لفظ استعمال کیا، تین دفعہ لفظ یہ تھا، طلاق، طلاق، طلاق۔ بلکہ یہ نہیں کہا کہ میں نے تمھیں طلاق دی۔ مزید اُس شخص نے یہ بھی کہا کہ میری بیوی نے اُس سے پوچھا کہ بھائی جان یہ مجھے کیا کہہ دیا ہے میری بیوی کو تقریباً نواں ماہ چل رہا ہے اور شدید بیمار ہے۔ ڈاکٹرز کا مشورہ ہے کہ اُسے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہونا چاہیے۔ اب مجھے اپنے کیے پر سخت ندامت ہے کہ مجھے نشہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس کی وجہ سے مجھ سے اتنی بڑی غلطی ہوئی اور دو خاندانوں میں جھگڑے کا سبب بنی۔ اب میں ہر طرح سے اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں میری مدد فرمائیں۔ (محمد عامر) (۲۵ اپریل ۲۰۰۸ء) جواب : بحالت نشہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: لَیْسَ لِمَجْنُوْنٍ وَ لَا لِسَکْرَانِ طَلَاقٌ ۔ یعنی ’’دیوانے اور نشہ والے کی طلاق کا اعتبار نہیں۔‘‘ اور حضرت عبداللہ بن عباس کا فرمان ہے: طَلَاقَُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرَہِ لَیْسَ بِجَائِزٍ۔ ’’نشہ والے سے اور زبردستی طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں: وَ ذَہَبَ اِلٰی عَدْمِ وَقُوْعِ طَلَاقِ السَّکْرَانِ اَیْضًا اَبُو الشَعْثَائِ وَ عَطَائٌ وَ طَاؤوسٌ وَعِکْرَمَۃٌ وَ الْقَاسِمُ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ۔ ’’ابوالشعثاء ، عطاء، طائوس، عکرمہ، قاسم اور عمر بن عبدالعزیز بھی بحالت نشہ عدم وقوع طلاق کے قائل ہیں۔‘‘ بعد میں اس مسلک کو ربیعہ، اللیث، اسحاق، مزنی اور طحاوی نے اختیار کیا ہے۔ [1] نشے کی حالت میں طلاق: سوال :ایک آدمی نے اپنی بیوی کو پہلی دو طلاقیں دیں۔ یعنی مختلف دو محفلوں میں، جب تیسری طلاق تیسری محفل میں دی تو وہ آدمی نشہ کی حالت میں تھا۔ کیا نشہ کی حالت میں اس کی دی ہوئی تیسری طلاق کو تیسری طلاق تصور کیا جائے یا دو طلاقیں تصور کرکے بیوی کے ساتھ دوبارہ نیا نکاح پڑھایا جا سکتا ہے۔ (محمد حسین ولد منظور حسین چیمہ۔لاہور) (۱۷ جولائی ۱۹۹۸ء)
Flag Counter