Maktaba Wahhabi

255 - 382
(۱) عورت کو زنا کا حمل نہ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُسْقِ مَاء َہُ زَرْعَ غَیْرِہِ۔ یعنی الوطء الحَوَامِل[1] ’’یعنی جس کا اللہ او ر قیامت کے دن پر ایمان ہے وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو مت پلائے۔ یعنی حاملہ عورتوں سے وطی نہ کرے۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے: ’لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّی تَضَعَ[2] ’’یعنی دوسرے سے حاملہ عورت سے مجامعت نہ کی جائے یہاں تک کہ وضع حمل ہو۔‘‘ اس طرح ایک روایت میں ہے ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا تو اس کو حاملہ بالزنا پایا معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریق کرادی۔[3] دوسری شرط یہ ہے کہ عورت زنا سے توبہ صادقہ کرے۔ قرآن میں ہے: ﴿وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (النور: ۳) ’’اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا، اور یہ(یعنی بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے۔‘‘ (ترجمہ فتح محمد جالندھری) حدیث میں ہے: اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ۔[4] اس طرح قصہ مرثد بھی عدم ِ جواز کی واضح دلیل ہے۔(ملاحظہ ہو :تفسیر ابن کثیر وغیرہ) میاں بیوی میں تکرار کے دوران طلاقاً طلاقاً کہنا: سوال : میاں بیوی میں تکرار ہو جاتی ہے۔ میاں کہتے ہیں، سُورنی کتّی طلاقاً طلاقاً وغیرہ وغیرہ۔(۱۴ جون ۱۹۹۶ء) جواب : مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے۔ گالی گلوچ کے دوران بیویٰ کو طلاقاً طلاقاً کہہ کر پکارنے سے نکاح میں فرق پڑے گا؟ سوال : میاں بیوی میں تکرار ہو جاتی ہے۔ میاں گالی گلوچ کے علاوہ طلاقاً طلاقاً کے الفاظ بھی کہہ دیتا ہے جب کہ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا اس سے نکاح میں کوئی فرق پڑے گا؟ (ایک سائل ) (۳۰ اپریل ۱۹۹۹ء) جواب : بایں صورت طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے۔
Flag Counter