Maktaba Wahhabi

255 - 418
طرح حق اور لشکر حق کی نصرت اور باطل اور اہل باطل کی پسپائی سے مومنوں کا اعتماد قوی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس بات کی تصدیق کرتا ہے: ’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے آپ کو وہ (خبر) سناتے ہیں جس سے ہم آپ کا دل مضبوط رکھتے ہیں اور اس (سورت) میں آپ کے پاس حق آ گیا اور مومنوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی بھی۔‘‘[1] انبیا ئے کرام کی رسالت پر دلالت کرنے والے واضح دلائل اور بلند پایہ براہین کے باوجود انھیں لوگوں کی حق سے بے رُخی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے اکثر پیرو کار حق کے ادراک و اتباع سے اندھے اور بہرے تھے اور انھوں نے باطل کی پیروی پر اصرار کیا ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنی واقعات میں اکثر انبیاء کی تکالیف پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا ہے: ٥﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا ﴿٦﴾ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا Ě ’’اس نے کہا: اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی، چنانچہ میری دعوت نے ان کے حق سے فرار ہی میں اضافہ کیا اور میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تاکہ تو ان کی مغفرت فرما دے تو انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑے اپنے(اوپر) لپیٹ لیے اور ضد کی اور انتہائی تکبر کا
Flag Counter