Maktaba Wahhabi

108 - 382
لہٰذا مرد اور عورت میں فوراً علیحدگی کرا دینی چاہیے۔ براء الرحم کے بعد دوبارہ با جازت ولی نکاح ہو سکتا ے اور اگر عورت امید سے ہوتو وضع حمل کا انتظار کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ بچی کا انتساب اسی آدمی کی طرف ہو گا کیوں کہ نکاح کا انعقاد غالباً غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا ہے۔ ایسے نکاح میں عورت کو حق مہر بھی دینا پڑتا ہے۔ حدیث میں ہے: فَإِنْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا۔[1] اور جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو وہ غیر موثر ہے کیونکہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوا۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات حلال ہوں گے یا حرام؟ سوال : کیا عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے ؟ کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو اس کا اپنے ناکح کے ساتھ ازدواجی تعلقات کرنا کیسا ہوگا؟ حلال یا حرام؟ (سید شہزاد عالم بخاری)(۹ فروری ۲۰۰۱ء) جواب : ولی کی اجازت کے بغیر عورت اگر کسی مرد کے ساتھ نکاح کر لیتی ہے تو یہ نکاح باطل ہے ، اس لیے کہ ولی کا ہونا نکاح کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [2] یعنی ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ ایسی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان فوراً تفریق کرادینی چاہیے کیونکہ شرعاً یہ نکاح باطل ہے ، ان کا ازدواجی وظیفہ ادا کرنا حرام ہے ۔ اگر ملاپ ہو چکا ہے تو عورت کو مہر ملے گا اور ایک حیض سے استبرائے رحم کے بعد اگر ولی کی اجازت عورت کو حاصل ہوجائے تو اسی مرد سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ کیا ولی خود اپنی زیر ِ ولایت عورت سے نکاح کر سکتا ہے؟ سوال :ایک مسلمان مومن مرد ہے جو اپنے نکاح کے موقع پر خود ہی دولہا ہے ، لڑکی کی طرف سے خود ہی وکیل ہے اور نکاح خواں بھی خود ہی ہے اور موقع پر صرف دو گواہ دولہا کی طرف سے موجود ہیں اور کسی شخص کو اس نکاح کا علم نہیں۔‘‘ ایسی صورت میں آپ رہنمائی فرمائیں کہ ایسا نکاح شریعت کی رُو سے کیا کہلائے گا؟ کیوں کہ ہمارے شہر میں یہ واقعہ ہو چکا ہے اور خاکسار بڑی الجھن محسوس کر رہا ہے۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی رُو سے اس کا اطمینان بخش
Flag Counter