Maktaba Wahhabi

212 - 382
’’یعنی جب مفقود(شوہر اوّل) واپس آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بیوی واپس لینے کا اختیار دے دیا، اس اثر کے رواۃ ثقات ہیں لیکن منقطع ہے۔‘‘ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ پہلا خاوند اپنی بیوی کو واپس لینے کا مجاز ہے اور اگر خیال ترک کردے تو بھی اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ واپسی بذریعہ طلاق اور اسبتراء رحم( ایک حیض) کے بعد ہوگی۔ مفقود الخبر خاوند کی بیوی کیا کرے؟ سوال :میری بہن کی شادی کو تقریباً پانچ سال کا عرصہ بیت گیا ہے اور چارسال تین ماہ سے میرا بہنوئی لاپتہ ہے ہم نے اخبارات کے ذریعے اعلان بھی کروایالیکن کوئی پتہ نہیں چلا۔ اس کے علاوہ ہم نے ریڈیو میں بھی اعلان کروایا لیکن پھر بھی کوئی پتہ نہیں چلا ۔ کیا اب ہم اس کی شادی دوسری جگہ کر سکتے ہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح فرمائیں۔ (سراجدین۔ لاہور) (۲۲ مئی ۱۹۹۸ء) جواب :موصوفہ چار سال مدت انتظار اور چار مہینے دس دن عدت وفات مکمل کرکے جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کر سکتی ہے۔ [1] ہوش و حواس کھوئے ہوئے شخص کی بیوی کو دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے ؟ سوال : زبیر نے شادی کی۔ شادی کے بعد وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ کیا اس کی بیوی کو دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے؟ (شفیق السلام۔ سرینگر۔ کشمیر) ( ۲۱ مارچ ۱۹۹۷ء) جواب : خاوند جو حقوقِ زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہو تو بیوی کو علیحدگی کا اختیار حاصل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نامردی کی صورت میں علاج معالجہ کے لیے ایک سال مدت مقرر کی تھی۔ لہٰذا اہلِ زوج کو کچھ مہلت ملنی چاہیے تا کہ وہ علاج کی کوشش کر سکیں۔ خاوند کے مستقل ذہنی مریض ہونے کی صورت میں ازدواجی زندگی کا حکم: سوال :ایک عورت کی شادی کو تقریباً تین سال گزر گئے ہیں، جب کہ خاوند دماغی مریض ہے اور اس کے لواحقین اس کا علاج بھی نہیں کرواتے۔ عورت کے لواحقین نے کہا ہے کہ ہم اس کا علاج کرواتے ہیں اس سے بھی وہ ٹال مٹول کرتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ خاوند اس صورت میں بیوی کے حقوق پاسداری نہیں کر سکتا اور گھر بسانے کا بھی اہل نہیں رہ گیا۔ عورت عرصہ دو سال سے اس سے جدا ہے اور اب بھی وہ اس کے گھر نہیں جانا چاہتی ، وہ اس مسئلے پر اس
Flag Counter