Maktaba Wahhabi

277 - 382
وَ قَدْ صَحَّحَ الْاِمَامُ ھٰذَا الاِسْنَاد وَ حَسَّنَہٗ ۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں: وَہَذَا الْحَدِیثُ نَصٌّ فِی الْمَسْأَلَۃِ لَا یَقْبَلُ التَّأْوِیلَ الَّذِی فِی غَیْرِہِ مِنَ الرِّوَایَاتِ[1] یاد رہے حالت ِ حمل میں دی ہوئی طلاق سنی ہوتی ہے۔ چنانچہمنتقی الاخبار میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے: (( ثُمَّ لِیُطَلِقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا۔‘(رواہ الجماعۃ الا البخاری، فتح الباری: ۹/ ۳۵۰)[2] اس سے معلوم ہوا کہ طہر یا حمل میں دی ہوئی طلاق سنی ہے بدعی نہیں۔لہٰذا وضع حمل سے قبل شوہر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کی صورت میں عقد ِ جدید بھی ہو سکتا ہے۔ حمل کی حالت میں دی گئی طلاق اور رجوع کا حکم: سوال :میری ہمشیرہ کو تقریباً ۹ سال گزر چکے ہیں۔ا س کے خاوند نے طلاق کے تینوں نوٹس اکٹھے بھیج دیے تھے۔ اُس وقت ہمشیرہ ۳ ماہ کی حاملہ تھی۔ دو بچیاں پاس تھیں۔ وہ بچیاں جوان ہو چکی ہیں۔ طلاق کے نوٹس واپس بھیج دیے تھے۔ قبول نہیں کیے تھے۔ اُس کے خاوند نے دوسری شادی کرلی تھی۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد وہ دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔ آپ ہمیں بتائیں کہ شریعت کے مطابق ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب :مذکورہ صورت میں راجح مسلک کے مطابق طلاقِ رجعی واقع ہوئی تھی۔ بعد میں وضع حمل کی صورت میں عورت عدت سے فارغ ہو گئی۔ اب اگر سابقہ خاوند اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ (البقرۃ: ۲۳۲) بحالت ِ حمل طلاق: سوال : میرے ایک دوست کی اپنی بیوی سے ہمیشہ لڑائی رہتی ہے اور بقول اس کے ہر کوشش کے باوجود اور تین بچے ہوجانے کے بعد بھی ان کا سلوک نہ ہو سکا۔ اور اب بھی اس کی بیوی حاملہ ہے اور وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے۔ ایسی حالت میں طلاق کیسے مؤثر ہوگی؟ کتنی مدت میں ہوگی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ (سجاد احمد
Flag Counter