Maktaba Wahhabi

265 - 382
یا اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ بیوی کو علم نہ ہو: سوال : جناب حافظ ثناء اﷲ مدنی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ: زید نے غلط فہمی کی بناء پر اپنی منکوحہ کو اپریل ۹۲ء میں تحریر اً طلاق لکھ کر بھیجی جو زید کے بھائی کو خط میں موصول ہوئی۔ زید نے بھائی کے سمجھانے پر پندرہ دن میں رجوع کر لیا۔ جولائی ۹۲ء میں پھر طلاق لکھ کر خط کے ذریعے بھیجی۔ وہ بھی اس کے بھائی کو موصول ہوئی۔ بھائی کے سمجھانے پر دس دن کے اندر رجوع کر لیا۔ اب جون ۲۰۰۰ء میں پھر طلاق لکھ کر خط کے ذریعے بھیجی ہے۔ اب بھی بھائی کے سمجھانے پر رجوع کرنے کے لیے تیار ہے (یاد رہے کہ اس دوران زید اپنی جائے ملازمت سے اپنے گاؤں جہاں اس کے بھائی، اس کی بیوی اور دیگر رشتہ دار رہتے ہیں، آتا رہا ہے) اپریل ۹۲ء سے اس طلاق اور رجوع کی خبر اس کی بیوی کو نہ زید نے دی ہے، نہ اس کے بھائی نے۔ مطلقہ کو نہ طلاق ملنے کی خبر ہے اور نہ اس کی کہ اس سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ مقامی عالم نے بتایا ہے کہ زید اپنی بیوی سے اب بھی رجوع کر سکتا ہے۔ پہلی طلاقیں رجوع کرنے سے ختم (معاف) ہو چکی ہیں۔ حالیہ طلاق ایک شمار ہو گی۔ اس موقف کے خلاف کوئی صریح دلیل نہیں ہے اور یہ موقف سلف میں بھی رہا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ’’سورہ بقرہ‘‘ کی آیت نمبر ۲۳۰ میں بھی وضاحت موجود ہے۔ ماہنامہ ’’حرمین‘‘ جہلم کے پرانے شمارے میں (غالباً مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ ) کا ایک مضمون بھی اس موقف کے حق میں شائع ہوا تھا۔ یہ سب حالات سامنے رکھ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ کیا یہ گھر آباد کرنے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ جب کہ زید کا اپنی بیوی کو نکاح میں رکھ کر پریشان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ (المستفتی: محمد اسرار۔ سندھ) (۸ ستمبر ۲۰۰۰ء) جواب : تحریری طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ عورت کو اس کا علم نہ ہی ہو۔ لہٰذا دو دفعہ طلاق اور رجوع درست ہے۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ (البقرۃ:۲۳۰) مقامی عالم کی بات درست نہیں کہ پہلی دو طلاقیں کالعدم ہیں۔ بلکہ وہ شمار میں آتی ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں آدمی کی عادت تھی، بیوی کو طلاق دے کر عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر لیتا، اس کا حق رجوع قائم رہتا۔ اگرچہ ہزار دفعہ طلاق دیتا۔ لیکن اسلام نے اس کو تین طلاقوں میں محدود کر دیا۔ آیتِ کریمہ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) کی یہی شانِ نزول ہے۔ ملاحظہ ہو :تفسیر کبیر: ۳/ ۸۳۔ بیوی کو تحریراً طلاقِ ثلاثہ دے کر رجوع کر سکتے ہیں؟ سوال : میں نے اپنی بیوی حنا ولد شفیق کو ۲۰۰۱ء۔۱۔۱۸ کو طلاق ثلاثہ لکھ کر دی، زبانی طلاق نہیں دی۔ اب ہم میاں
Flag Counter