Maktaba Wahhabi

279 - 382
تم مجھ پر حرام ہو وغیرہ وغیرہ‘‘ لکھ کر بھیج دیا۔ بیوی اس وقت تقریباً سات ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کے بعد کچھ ہی دنوں میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ اب تقریباً ایک سال دو ماہ بعد دونوں فریق آپس میں نکاح کرنا چاہتے ہیں (بچہ بھی پیدا ہوچکا ہے۔) ایسی صورت میں قرآن وسنت کا کیا حکم ہے؟ (شاہد حنیف) (۱۶ مئی ۲۰۰۸ء) جواب :راجح مسلک کے مطابق مندرجہ بالا صورت میں طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ ’کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[1] یعنی ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں عہد نبوی وخلافت صدیقی اور دو سال خلافت فاروقی میں ایک طلاق شمار ہوتی تھی۔‘‘ اور حالت حمل میں دی ہوئی طلاق بھی سنی شمار ہوتی ہے۔ حدیث ابن عمر میں ہے: ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا[2] ’’اور وضع حمل کی صورت میں اس کی عدت مکمل ہوگئی۔‘‘ شوہر سے علیحدگی چوں کہ طلاق رجعی کی صورت میں ہوئی ہے اس بنا پر عورت اگر اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ اس نکاح کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو عام حالات میں ہے۔ نکاح باجازت ولی ہونا، حق مہر کا تقرر ہونا حسب حیثیت، گواہوں کا مقرر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حکم: سوال : میرے عزیز نے اپنی بیوی کو ۹۵/ ۲/ ۲۷ کو طلاق زبانی دی۔ آٹھ دس دن بعد آپس میں صلح ہو گئی۔ پھر اس کے بعد تقریباً سوا سال کے بعد ۹۶/ ۴/ ۸ کو آپس میں نا چاقی ہوئی۔ اور بیوی نے شدت سے مطالبہ کیا کہ مجھے طلاق دو۔ طلاق دو۔ اور مجھے فارغ کرو۔ خاوند نے بیوی کے مطالبے پھر زبانی طلاق دے دی۔ پھر چند ہی دنوں کے بعد آپس میں رجوع کر لیا۔ اس کے بعد بیوی اپنے میکے ۹۶/ ۶/ ۱۰ کو ناراض ہو کر لاہور آگئی اور وہ حاملہ بھی تھی۔ خاوند نے ۳۰ روپے والے سرکاری اشٹام پر اسے طلاق نامہ اس کے گھر بھیج دیا۔ اور انھوں نے وصول بھی کر لیا۔ تقریباً چھ ماہ بعد وضع حمل سے تین دن پہلے ان کی آپس میں صلح ہو گئی ہے۔ لیکن عالم حضرات فرماتے ہیں کہ ان کی صلح نہیں ہوئی کیونکہ تینوں طلاقیں مؤثر ہو گئی ہیں۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث
Flag Counter