Maktaba Wahhabi

222 - 382
اس سے معلوم ہو ا لڑکی بلوغت کے بعد اپنا نکاح فسخ(ختم) کراسکتی ہے۔ کیوں کہ نکاح اس کی اجازت سے ہونا چاہیے۔ اور صغرسنی(چھوٹی عمر) میں وہ اِذن(رضامندی کے اظہار) کے قابل نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بڑی ہو کر وہ اپنا حق لے سکے۔ بنابریں مذکورہ عورت کو موجود خاوند کے گھر آبادکاری سے پہلے مکمل طور پر فسخ کا اختیار ہے۔ بصورتِ دیگر یہ اختیار باقی نہ رہے گا۔ اور فسخ کا طریقِ کار یہ ہے کہ قابلِ اعتماد ذرائع کے سامنے عورت نکاح ہذا کو رد کردے چاہے وہ عدالت کے ذریعہ ہو یا پنچایت وغیرہ کی وساطت سے۔ بچپن میں کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھنے کا اختیار: سوال :گزارش ہے کہ ہمارے ایک عزیز نے اپنی بیٹی کا بچپن میں رشتہ کیا تھا۔ (جب اس کی عمر تین چار سال تھی) لیکن اب لڑکی کا ارادہ نہیں ہے جب کہ اس وقت دونوں والدین کی طرف سے ایجاب و قبول ہوا تھا۔ بچوں کی طرف سے نہیں ہوا تھا۔ اب کیا وہ نکاح قائم ہو گیا ہے؟ یا کہ وہ نکاح نہیں ہوا ہے؟ نص کے حوالے سے تفصیلاً آگاہ فرمائیں۔(سائل رحمت اللہ اطہرلاہور)(۳۱ مئی ۱۹۹۶ء) جواب :بلاشبہ صغر سنی( چھوٹی عمر) میں منعقد شدہ نکاح درست ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس عمر میں کوئی دوسرا ہی اس کے قائم مقام ہو کر ایجاب و قبول کرائے گا۔ ہاں البتہ بعد از بلوغت لڑکی کو خیارِ بلوغت (چھوٹی عمر کا نکاح رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار) حاصل ہوتا ہے اگر وہ اپنے شوہر کے ہاں آباد نہیں ہونا چاہتی تو باوثوق ذرائع کے سامنے مثلاً عدالت یا پنچایت کے روبرو اس نکاح کو ردّ کر سکتی ہے۔ یاد رہے یہ اختیار لڑکی کو اس وقت تک حاصل ہے جب تک شوہر سے مقاربت نہ ہو۔ قصہ بریرہ میں ہے: فَان قُرُبَکِ فَلَا خِیَارَ لَکِ [1] صحیح روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بیوہ کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی اس کا اذن کس طرح ہوگا؟ ( وہ تو شرماتی ہے) فرمایا : خاموش رہنا اس کا اِذن(رضامندی) ہے۔[2] حدیث ہذا سے معلوم ہوا کہ لڑکی بالغہ ہو کر نکاح فسخ کراسکتی ہے۔ اس لیے کہ نکاح اس کی اجازت سے ہونا چاہیے۔ اور بچپن میں وہ قابلِ اِذن نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بڑی ہو کر وہ اپنا حق استعمال کر سکے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو فسخ کا اختیار ہو۔
Flag Counter