Maktaba Wahhabi

221 - 382
وَسَأَلَتْہُ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - جَارِیَۃٌ بِکْرٌ، فَقَالَتْ: إنَّ أَبَاہَا زَوَّجَہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ، فَخَیَّرَہَا النَّبِیُّ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -؛ فَقَدْ أَمَرَ بِاسْتِئْذَانِ الْبِکْرِ، وَنَہَی عَنْ إنْکَاحِہَا بِدُونِ إذْنِہَا، وَخَیَّرَ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - مَنْ نُکِحَتْ، وَلَمْ تُسْتَأْذَنْ ۔[1] ’’ہم اسی فتویٰ کو لیتے ہیں، ضروری ہے کہ باکرہ سے اجازت لی جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات صحیح طور پر ثابت ہے کہ بیوہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے اور باکرہ سے اس کے نفس میں امر طلب کیا جائے اور اس کا اِذن( اجازت) اس کی خاموشی ہے۔ بعض الفاظ(روایات) میں ہے کہ باپ باکرہ سے اس کے نفس کے سلسلے میں اجازت طلب کرے اور اس کا اِذْن اس کی خاموشی ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باکرہ کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائے۔ لوگوں نے کہا اس کا اِذْن کیسے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اِذْن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک باکرہ لڑکی نے سوال کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح زبردستی کردیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دے دیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ باکرہ سے اجازت لی جائے اور اس کے اِذْن کے بغیر نکاح سے منع کردیا اور جس سے اجازت نہیں لی گئی تھی اس کو اختیار دے دیا۔‘‘ ان نصوص کی بناء پر مذکورہ لڑکی کو اختیار ہے، نکاح ہذا ردّ کر سکتی ہے۔ کیا بالغ لڑکی کو چھوٹی عمر کا نکاح چھوڑنے کا اختیار ہے؟ سوال :میرانام جنت ہے۔ میرے والدصاحب نے میرے بچپن میں میرا نکاح ایک لڑکے روشن علی نامی سے کردیا تھا۔ اس وقت میری عمر ۸ سال تھی اور لڑکے کی عمر ۴ سال تھی۔ اب میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں اور میری عمر اس وقت ۱۴ سال ہے اور مجھے اپنی شادی کا وقت بھی یاد نہیں ہے۔ اب یہ بات میری امی نے مجھے بتائی ہے اور مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے۔ براہِ مہربانی اس کا تحریری طور پر جواب بھیجیں کہ شریعت میں اس کا کیا ہونا چاہیے؟ مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ (جنت بنت نبی بخش مرحوم چانڈیو) (۱۲ اپریل ۱۹۹۶ء) جواب :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی۔ اس کا اِذن(رضامندی) کس طرح ہو گا(شرم سے وہ بولتی نہیں) تو فرمایا: خاموشی ہی اس کا اِذن (رضامندی)ہے۔[2]
Flag Counter