اندھیرے (ہی اندھیرے چھائے ہوئے) ہوں۔ اگر وہ اپنا ہاتھ نکالے تو لگتا ہے کہ وہ اسے بھی نہ دیکھ سکے، اور جس کے لیے اللہ نے نور نہیں بنایاتو اس کے لیے (کہیں بھی) کوئی نور نہیں۔‘‘[1] اس آیت کریمہ میں گہرے سمندر کی طرف اشارہ ہے جسے حال ہی میں سمندری ماہرین نے اس وقت دریافت کیا جب وہ سمندر کی ان نہایت عمیق گہرائیوں تک غوطہ زن ہونے کے قابل ہو گئے جہاں سمندری اندھیرے درجۂ کمال کو پہنچتے ہیں اور جہاں اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے اور زبردست ٹھنڈک ہے۔ اس آیت پر پہنچ کر براؤن نے ایک ہندوستانی مسلمان عالم سے پوچھا: ’’کیا تمھارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سمندر کا سفر کیا تھا؟ اس عالم نے جواب دیا: ’’نہیں!‘‘ براؤن نے دوبارہ پوچھا: ’’تو پھر انھیں سمندری علوم کس نے سکھائے؟‘‘ اس مسلمان عالم نے جواب میں اس سے پوچھا: ’’آپ کو اس سوال کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، آپ کا اصل مقصد کیا ہے؟‘‘ براؤن نے کہا: ’’ میں نے اسلام کی کتاب (قرآن) کی ایک آیت پڑھی ہے۔ سمندر کی گہرائی کے متعلق اس میں جو کچھ بیان کیا گیا اسے صرف وہی شخص جان سکتا ہے جسے سمندر کا وسیع علم دیا گیا ہو، پھر براؤن نے اس عالم کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور کہا: جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سمندر کا سفر کیا نہ سمندری علوم کے ماہرین اور اساتذہ سے کوئی معلومات حاصل کیں اور نہ انھوں نے کسی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے میں کوئی تحقیق کی بلکہ وہ ناخواندہ تھے تو پھر انھیں یہ نفع بخش علم کس نے سکھایا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ خالق کائنات کی طرف سے بالکل سچی وحی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں: |
Book Name | قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے |
Writer | فضیلۃ الشیخ محمود بن احمد الدوسری |
Publisher | مکتبہ دار السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر |
Volume | |
Number of Pages | 418 |
Introduction |