عَنْہُ مُعْرِضُونَ﴾ یعنی تم اس سے اعراض (رُو گردانی) کیے ہوئے ہو، لہٰذا تم اس پر ایمان نہیں لاتے۔‘‘[1] یہ ’’النبأ العظیم‘‘ (عظیم خبر) اس لیے آئی ہے تاکہ قرآن کریم کی یہ دعوت کسی خاص قوم یا خطے تک محدود نہ رہے بلکہ وہ مکہ مکرمہ کے قریش، جزیرہ نمائے عرب کے عربوں اور تمام روئے زمین کی نسلوں کو سیراب کرتے ہوئے ان سے کہیں آگے نکل جائے، اور تمام زمانوں اور پوری انسانیت کے مستقبل پر اثر انداز ہو اورجب سے یہ قرآن اس زمین پراترا ہے اس زمانے سے لے کر اس وقت تک جب اللہ تعالیٰ زمین اورروئے زمین کی ہرچیز کا وارث ہوگا، انسانی زندگی کے نتائج کو پرکیف اور بہار آفرین بنائے۔بے شک اس عظیم خبر(النبأ العظیم) نے انسانیت کی پیش رفت کے لیے صراط مستقیم اجاگر کردی ہے۔ پوری انسانیت کی تاریخ میں کوئی حادثہ یا خبر ایسی نہیں گزری جس نے انسانیت میں وہ نقوش و آثار چھوڑے ہوں جو اس خبر عظیم (النبأ العظیم) نے نقش کردیے ہیں۔ اس حقیقت سے قرآن کریم کی عظمت، منزلت اوراس کی شانِ تاثیر جھلکتی ہے۔ قرآن کریم نے روئے زمین پر انسانیت کی تمام نسلوں میں ایسی اعلیٰ اقدار اور بلند تصورات پیدا کیے، ایسے جامع قواعد بنائے اور ایسے شان دار نظام قائم کیے جن کے بارے میں عربوں کے دل و دماغ میں کبھی کوئی تصور بھی نہیں گزرا ہوگا۔ وہ اس دور میں اس بات کا ادراک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ خبر عظیم، یعنی قرآن کریم زمین کی سطح سے شرک کو مٹانے اور توحید کے چراغ روشن کرنے، ظلم کی زنجیریں توڑنے اور عدل کا پرچم لہرانے،انجام زندگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت ثابت کرنے اور انسانیت اوراس کے احوال پر اپنے مبارک اثرات نقش کرنے کے لیے آیا ہے۔ |
Book Name | قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے |
Writer | فضیلۃ الشیخ محمود بن احمد الدوسری |
Publisher | مکتبہ دار السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر |
Volume | |
Number of Pages | 418 |
Introduction |