Maktaba Wahhabi

295 - 382
فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَأَرْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ ۔قَالَ: فَرَجَعَہَا۔‘[1] اس سے معلوم ہوا کہ موجودہ صورت میں علیحدگی طلاق رجعی کی صورت میں ہوئی ہے۔ بایں صورت دوبارہ آباد کاری ہو سکتی ہے۔ جس طرح کہ’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کے قصہ میں مصرح ہے۔[2] اسی سبب سے قرآن کی آیت ﴿فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْہَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ الآیۃ نازل ہوئی تھی۔[3] بذریعہ خط طلاق لکھنے کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے ؟ سوال : ایک شخص آج مؤرخہ ۹۷/ ۹/ ۲۸ کو بذریعہ فون اپنے والد کو مطلع کرتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر ٹھیک ایک ماہ بعد بذریعہ خط طلاق لکھ کر بھیجتا ہے۔ گیارھویں مہینے میں پھر ان کی صلح ہوجاتی ہے۔ آیا اسے رجوع کا شریعت حق دیتی ہے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔(آپ کا ادنیٰ ترین خادم۔ سید عبدالرحیم) (۲۸ نومبر ۱۹۹۷ء) جواب : راجح مسلک کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی ہے اور دوسری طلاق بھی رجعی ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ (البقرۃ:۲۲۹)بایں صورت عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا اختیار ہے۔ اور عدت گزرنے کی صورت میں عقدِ جدید بھی ہو سکتا ہے۔ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا صحیح ہے؟ سوال : ایک شخص ایک وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے بتائیں یہ صحیح ہے؟ (سائل: رانا عباس للیانی تحصیل و ضلع قصور) (۵ جون ۱۹۹۷ء) جواب : ایک وقت میں تین ﷲطاقیں دینا منع ہے۔ وقوع کی صورت میں اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ طلاق ہذا مغلظہ ہے یا رجعی صحیح بات یہ ہے کہ رجعی ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ
Flag Counter