Maktaba Wahhabi

344 - 382
(سائل) (۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء) جواب : مذکورہ بالا صورت میں طلائق بائن واقع ہوئی ہے۔ جس میں رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ عورت کے ذمہ کوئی عدت ہے۔ ہاں البتہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو شرعی طور پر اس کی اجازت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا﴾ (الاحزاب:۴۹) رخصتی سے قبل تین طلاق: سوال : ایک شخص نے رخصتی سے قبل اپنی منکوحہ کو تین طلاقیں بیک وقت دے دیں۔ اب وہ شرمندہ ہے اور صلح کرنا چاہتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں کیا اس کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ جواب دے کر ممنون فرمائیں۔جزاکم اﷲ فی الدارین خیراً (ایک سائل از راولپنڈی) (۱۱ جولائی ۱۹۹۷ء) جواب : مسئلہ ہذا میں جمہور اہلِ علم کا اختیار اگرچہ بینونتِ کبرٰی ہے لیکن اس میں میرے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ موجودہ حالت میں بینونتِ صغری ہوئی ہے۔ صحیح مسلم میں واقع حدیث ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً)) [1] کے عموم کا تقاضا یہی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شرعاً ’’غیر مدخول بھا‘‘ کی علیحدگی کے لیے صرف ایک طلاق متیقن ہے باقی دو بلا محل ہیں جن کا اعتبار نہیں۔ لہٰذا مذکورہ صورت مَیں دوبارہ نکاح منعقد ہو سکتا ہے۔ قبل از رخصتی طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کا حکم: سوال :عبید الرحمن طارق ولد بشیر احمد کا نکاح روبینہ کوثر دختر محمد زکریا سے دو تولہ طلائی زیور(مالیتی دس ہزار روپے) حق مہر کے عوض ہوا مگر رخصتی نہ ہوئی ۔ لڑکی کے والدین کے مطالبے پر عبید الرحمن نے روبینہ کوثر کو اس شرط پر طلاق دے دی کہ وہ حق مہر یا دیگر کسی خرچے کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ ٭ کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے؟ ٭ کیا لڑکی کے والدین اپنی لڑکی کا نکاح جہاں چاہیں کر سکتے ہیں؟
Flag Counter