Maktaba Wahhabi

78 - 382
سبب انکار: نکاح کی تحریر کا نہ ہونا ہے اور اب وہ مولوی صاحب نکاح پڑھانے والے قضائے الٰہی سے وفات پا چکے ہیں۔ اب وہ شخص (امام بخش لغاری) گواہوں کی بات نہ مانتے ہوئے اور تحریر کے نہ ہونے پر اپنی لڑکی کا رشتہ دینے سے انکاری ہے۔ (شبیر احمد عثمانی ولد خدا بخش لغاری، ضلع ڈیرہ غازی خاں) (۱۵۔ اگست ۱۹۹۷ء) جواب :مذکورہ بالا نکاح درست ہے۔ لڑکی کے والد کو چاہیے کہ اسے رخصت کردے۔ نکاح کو تحریر میں لانا محض قانونی عمل ہے ۔ عدمِ تحریر کی صورت میں نکاح کی حیثیت قطعاًمتاثر نہیں ہوتی۔ قرونِ اولیٰ میں بلا تحریر نکاح منعقد ہوتے تھے۔ قصہ المرأۃ الواہبہ میں ہے: (( زَوَّجْتُکَھَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ۔)) [1] اس آدمی کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی کلامی بلا تحریر پڑھایا تھا۔ پھر نکاح کے گواہوں کو بلاوجہ تسلیم نہ کرنا بھی غیر درست فعل ہے۔ لہٰذا لڑکی کے والد کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرکے رضا و رغبت کا اظہار کردینا چاہیے۔ واللہ ولی التوفیق۔ شادی کی تقریب کا طریقہ: سوال :شریعت میں شادی کی تقریب کیسے منانے کا حکم ہے؟ (سائل محمد نعیم شہزاد شالیمار کالج لاہور) (۷ جنوری ۱۹۹۴ء) جواب :نکاح کا انعقاد سادگی سے ہونا چاہیے۔ عہدِ نبوت کی شادیوں پر غوروفکر کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے مثلاً مدینہ نبویہ میں حضرت عبدالرحمن(بن عوف) رضی اللہ عنہ کا نکاح منعقد ہوتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔ ان پر رنگ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا ہے کہا یا رسول اللہ! ((تَزَوَّجْتُ اِمْرَأَۃً مِنَ الاَنْصَارِ))[2] اور اسی طرح کتب احادیث میں مشہور ومعروف قصہ کہ وہ شخص جس کو مہر کے لیے کوئی شئے بھی میسر نہ آسکی تھی۔ بلاسابقہ اہتمام کے حاضر مجلس میں اس کا نکاح بایں الفاظ منعقد فرما دیا: (( زَوَّجْتُکَھَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ))[3] مزید آنکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کانکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خود ہی پڑھایا جس طرح کہ مواہب اللدنیۃ وغیرہ میں تصریح موجود ہے۔ پھر نہایت خاموشی سے حضرت ام ایمن کے ہمراہ اس کو رخصت
Flag Counter