Maktaba Wahhabi

339 - 382
فارغ کردیا ہے۔ جب کہ میں نے آج تک کبھی اس کے سامنے کوئی ایسا لفظ تک استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی لفظ طلاق استعمال کیا اور نہ کبھی کسی طریقے سے ان کے کانوں تک کوئی خبر پہنچائی۔ مجھ کو پتہ تھا کہ کبھی وقت آئے گا جب کہ مجھ کو صلح کرنی پڑے گی۔ براہِ مہربانی آپ بتائیں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس سے رجوع کر سکتا ہوں اور اس کا کیا طریقہ ہو گا؟ ( محمد سلیم فیروز پور روڈ ، اچھرہ) (۲۶ جون ۱۹۹۸ء) جواب :خاوند کا عزیز و اقارب اور احباب کے سامنے اس بات کا اظہار کہ میں نے دوسری بیوی کو آزاد کردیا یا فارغ کردیا ہے۔ بعینہٖ طلاق ہے۔ لفظ طلاق کی ادائیگی ضروری نہیں بلکہ ہر وہ لفظ جو طلاق کے مفہوم پر دلالت کرے اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ بیوی کے علم میں آنا بھی ضروری نہیں۔ اگر یہ الفاظ متعدد مجالس میں تین دفعہ کہے جا چکے ہیں تو رجوع کی گنجائش نہیں۔یہاں تک کہ عورت دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ اپنی مرضی سے اس کو چھوڑ دے تو عدت کے بعد دوبارہ نکاح ہو سکے گا ورنہ نہیں، اور اگر یہ الفاظ تین سے کم دفعہ کہے ہوں تو تجدید ِ نکاح ہو سکتی ہے۔ بدکلام بیوی کو ’’اس کے میکے واپس بھیجنے‘‘ کی بات کرنا: سوال :زید (جو گھر سے باہر دوسرے شہر میں رہتا ہے اور اس کی بیوی گھر میں ہے) نے اپنی بیوی جو کہ منہ پھٹ ہے۔(یعنی بدکلام اور بے عقل جو کچھ منہ میں آئے بک دیتی ہے اور کوئی خرابی نہیں ہے) سے تنگ آکر اپنی بیوی کے خلاف اپنے سسر کو خط لکھ دیا ہے جس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔ ’’اب مجھ سے برداشت مشکل ہے۔ میں اپنے چچا(سسر) صاحب سے معافی مانگتے ہوئے آپ کی خدمت ِ اقدس میں عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنی بچی مع سب سامان جو آپ نے اسے دیا ہے۔ اپنے گھر لے جائیں ، میں نے بڑی سوچ اور سمجھ کے ساتھ آپ کی طرف یہ خط لکھا ہے۔‘‘ بس الفاظ صرف یہ ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح فرمایا جائے کہ زید مذکورہ کے درج بالا الفاظ سے ان کے نکاح پر کوئی زد تو نہیں پڑتی۔ (صوبیدار صابر حسین) جواب :مذکورہ عبارت کنایات کی قبیل سے ہے۔ زید کا مقصود اگر طلاق ہے تو وہ واقع ہو گی اور اگر صرف تہدید اور وعید مقصود تھی تو اس کی نیت کے مطابق عمل ہو گا۔ صحیح بخاری میں قصہ ابنت الجون میں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو طلاق بایں الفاظ دی تھی: ((اِلحَقِی بِأَہْلِک ِ)) [1] ’’یعنی گھر چلی جا۔‘‘
Flag Counter