Maktaba Wahhabi

324 - 382
کا خلاف نہیں کرے گا۔ ۴۔مأمور سے کسی ایسی شے کا اظہار نہ ہو جو اس کے اختیار پر دال ہو۔ اب ان شروط کی روشنی میں ہمیں اصلی حقائق کا جائزہ لینا ہو گا کیا مذکور شخص فی الواقع مکرہ ہے یا نہیں؟ حالات و واقعات کی تصویر سے ظاہر ہے کہ شوہر نے دو (۲) دفعہ اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے کر رجوع اور صلح صفائی کا حق استعمال کیا ہے۔ اس کے باوجود کہ رشتہ داروں کو یہ بات پسند نہ تھی اور وہ اس کی بیوی کی علیحدگی کے خواہاں تھے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس آدمی پر جبر و اکراہ نہیں ہوا بلکہ وہ صرف گھریلو خاندانی پریشانیوں سے تنگ ہوا ہے اور اسی کا نام اس نے ’’زبردستی طلاق‘‘ رکھا ہے۔ پھر قرابت داروں کی طرف سے سرزنش بھی معمولی نوعیت کی ہے۔ جس کی بذاتہٖ کوئی اہمیت نہیں۔ اسی بناء اس طلاق کے وقوع اور رجوع کو درخورِ اعتناء سمجھا گیا ہے۔ بعد ازاں تیسری طلاق کے وقت جب اس کو قتل کی دھمکی ملی تو کیا اہلِ قرابت کے پاس کوئی تیز دھار آلہ تھا۔ جس کے تعامل پر وہ قادر ہوں، اس سے اس کی جان کو فوری خطرہ لا حق ہو اور اس نے ان سے بھاگ کر جان بچانے کی سعی کی ہو۔ اس کے باوجود اس کو پکڑ کر جبرو اکراہ سے طلاق نامہ تحریر کرا لیا گیا ہو۔؟ ان امور کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اس کا نام مکرہ رکھنا افراط و تفریط نہیں تو اور کیا ہے۔ محض الفاظ کے استعمال سے حقیقت نہیں بدلا کرتی۔ فیصلہ جملہ امور کے پیشِ نظر ہوا کرتا ہے۔ پھر غالب گمان یہ ہے کہ جس معاملہ پر افراد کا اجتماع ہو وہ محض دباؤ کی ایک شکل و صورت ہوا کرتی ہے۔ اس میں قتل جیسی حماقت کا تصور عام طور پر نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس طلاق کا وقوع محض مرعوبیت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس کے ماوراء کوئی حقیقت نہیں کہ ان پر وثوق و اعتماد کا اظہار کر کے جبر و اکراہ کے احکام جاری کیے جا سکیں۔ کیا والدہ کے مجبور کرنے پر طلاق دینا زبردستی کی طلاق شمار ہوگی: سوال :جناب حافظ ثناء اللہ صاحب۔ السلام علیکم۔ میں ابوظہبی میں کام کرتا ہوں اور تقریباً ایک سال پہلے پاکستان اپنی سالانہ چھٹی پر گیا تھا اور شادی بھی کروائی تھی۔ مہینہ دو مہینے اپنی بیوی کے ساتھ گزارے کسی قسم کا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا نہ میرے ساتھ اور نہ میرے گھر والوں کے ساتھ، لیکن جب میں واپس چھٹی گزار کے ابوظہبی آگیا تو میری بیوی، میری ماں اور میرے گھر والوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں سے جھگڑے شرو ع ہو گئے۔ میں سب کو سمجھاتا رہا۔ لیکن میری ماں اور سب گھر والوں نے مجھے مجبور کرنا شروع کردیا کہ میں اپنی بیوی کو باہر سے طلاق لکھ کر بھیج دوں جب کہ میں طلاق کسی صورت بھیجنا نہیں چاہتا تھا۔ والدہ صاحبہ مجھے یہاں تک کہنے لگیں کہ اگر تم نے باہر سے طلاق نہ بھیجی تو میرے گھر بھی مت آنا۔ میری والدہ اور گھر والوں نے میری ایک بات نہ مانی اور مجھے اس قدر مجبور کردیا ۔
Flag Counter