Maktaba Wahhabi

311 - 418
ہر کارنامہ سر انجام دے دیا ہے اور میری شہرت اور کامیابی پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے اور میں نے دولت اور عورت سمیت ہر چیز حاصل کر لی لیکن سچ پوچھو تو میں ایک بندر کی طرح تھا۔ میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر کودتا پھرتا تھا، میں نے کبھی قناعت نہیں کی لیکن قرآن کریم کی قراء ت میری فطرت میں موجود ہر اس چیز کے لیے تصدیق و توثیق ثابت ہوئی جسے میں حق سمجھتا تھا اور قرآن کریم سن کر یوں محسوس ہوا گویا وہ میری حقیقی شخصیت کی تشکیل اور اس کی حقیقی رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔‘‘[1] ٭ فنسائے مونتائے: اسلامی عربی فکر پر قرآن عظیم کی تاثیر کے جو گہرے نقوش ثبت ہیں، اس سلسلے میں فرانسیسی مفکر فنسائے مونتائے کہتے ہیں: ’’قرآن عظیم کی تاثیر سے دوری اختیار کرنے والے اسلامی عربی فکر کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے بدن سے خون نکال لیا گیا ہو۔‘‘[2] ٭ برطانوی خاتون ہونی: برطانوی خاتون ہونی فلسفے کی دیوانی تھی۔ فلسفہ اس کے دل اور دماغ میں رچ بس گیا تھا۔ اسی مضمون میں اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ قرآن عظیم کی اثرانگیزی کے بارے میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’چاہے میں کتنی ہی کوشش کر لوں حقیقت یہ ہے کہ میں قرآن عظیم کی اس تاثیر کو بیان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی جو قرآن عظیم نے میرے دل میں سمو دی ہے۔ میں ابھی قرآن عظیم کی تیسری سورت بھی ختم نہیں کر پائی تھی کہ میں نے اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے سجدہ ریز دیکھا۔ قبول اسلام کے بعد یہ میری پہلی نماز تھی۔‘‘[3]
Flag Counter