Maktaba Wahhabi

311 - 382
سے ایک قول یہی ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب بھی اس بات کے قائل ہیں۔‘‘ طلاقِ ثلاثہ کے متعلقہ ایک فتویٰ: سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین درایں مسئلہ کہ ایک شخص نے دو ماہ تئیس روز قبل اپنی بیوی کو جو کہ عرصہ دس برس سے اس کے ساتھ رہ رہی تھی ، تحریرا بیک جنبش قلم تین مرتبہ ’’طلاق‘‘ دے دی۔ اور بعد ازاں ذاتی وجوہات کی بناء پر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنے پر آمادہ ہو گئے۔ لہٰذا دونوں نے شہر کے ایک ’’مستند‘‘ اہل حدیث عالم سے تحریری فتویٰ حاصل کیا ۔ اور اب یکجا رہ رہے ہیں۔ جو فتویٰ حاصل کیا گیا اس میں دونوں کو بلا تجدید نکاح ایک ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی۔ سوال کیا جاتا ہے کہ آیا: ۱۔ بیک جنبش قلم تین مرتبہ طلاق لکھنے سے طلاق ہو گئی؟ ۲۔ اگر طلاق ہوئی تو کتنی مرتبہ طلاق شمار کی جائے گی؟ ۳۔ اہل حدیث عالم کا مذکورہ فتویٰ( جس کی کاپی ساتھ لف ہے) درست ہے یا غلط؟ ۴۔ میاں بیوی کا اس وقت بلا تجدید نکاح ایک ساتھ رہنا درست ہے یا غلط۔ (سائل) (۲۸ جولائی۱۹۹۵ء) جواب : فتویٰ طلاقِ ثلاثہ کتاب وسنت کی روشنی میں (جو سوال کے ساتھ لف تھا) آپ ملاحظہ فرمائیں: صورتِ مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ گل حسن بدربن محمد دین صاحب نے اپنی زوجہ مسمات خورشید بیگم بنت نور محمد مرحوم کو بیک وقت تین طلاقیں کہی ہیں اور وہ بھی غصہ کی حالت میں جو ایک رجعی طلاق ہوتی ہے ، جس میں رجوع کی بہت گنجائش ہے کیونکہ رب العزت کا فرمان قرآن پاک کے اندر موجود ہے: ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) دو طلاقیں رجعی ہیں۔ تیسری طلاق مغلظہ ہے۔ اور یاد رکھئے طلاق کے لیے عدت بہت ضروری ہے۔ عدت کے بغیر طلاق دینا اور بیک وقت اور تین شمارکرنا خلافِ شریعت ہے اور کتاب و سنت کے منافی ہے۔ طلاق ہر طہر میں دینی چاہیے۔ طلاق دینے کے ایک ماہ گزرنے کے بعد دوسری طلاق دینی چاہیے۔ دوسرے ماہ کے بعد تیسری طلاق دینی چاہیے۔ یہ ہے طلاق دینے کا سنت طریقہ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔ حدیث نمبر:۱، صحاح ستہ کی چوٹی کی کتاب’’صحیح مسلم‘‘شریف میں موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ
Flag Counter