Maktaba Wahhabi

310 - 382
ضروری نہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری:۹/۴۸۳) رجوع پر اگر گواہ ہوں تو اچھا ہے۔ ورنہ ان کے بغیر بھی رجوع درست ہے۔ کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں ہے: ’مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا[1] اور کنائی الفاظ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو :فتح الباری۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَالْعِصْمَۃُ الثَّابِتَۃُ لَا تُرْفَعُ بِالِاحْتِمَالِ وَبِأَنَّ مَنْ یَقُولُ إِنَّ مَنْ قَالَ لِزَوْجَتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ طَلْقَۃً بَائِنَۃً إِذَا لَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ خُلْعٌ أَنَّہَا تَقَعُ رَجْعِیَّۃً مَعَ التَّصْرِیحِ کَیْفَ لَا یَقُولُ یَلْغُو مَعَ التَّقْدِیرِ۔[2] ’’یعنی رشتہ ازدواج محض احتمالات سے ختم نہیں ہوتا، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ میں تجھے طلاق ِ بائن دیتا ہوں تو اس تصریح (طلاقِ بائن) کے باوجود وہ ایک ہی طلاقِ رجعی واقع ہوگی…‘‘ دیوبندی فتویٰ میں تین قسم کے الفاظ کو جو طلاقِ بائن کہا گیا ہے۔ وہ درحقیقت طلاقِ بائن نہیں کیونکہ وہ تو محض تاکیدی الفاظ ہیں یعنی ایک ہی طلاق کے الفاظ مختلف طریقوں سے دہرائے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ طلاقِ بائن نہیں ہوگی۔ ایک مجلس کی تین طلاق کے متعلق ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے مصنف کا موقف : سوال : کتاب’’حقیقۃ الفقہ‘‘ مصنفہ مولانا حافظ محمد یوسف جے پوری کے صفحہ ۱۷۵ پر بحوالہ ’’شرح وقایہ‘‘ لکھا ہے کہ ’’بعضوں کے نزدیک تین طلاق ایک جلسہ میں ایک طلاق ہوگی۔‘‘ کیا یہ فقہاء حنفیہ کی طرف اشارہ ہے؟(عبید الرحمن) (۲۷ دسمبر۱۹۹۶ء) جواب :یہ بعض سلف کی طرف اشارہ ہے جو حنفیہ کے علاوہ ہیں۔چنانچہ مولانا عبدالحئی حنفی’’عمدۃ الرعایۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں: اَلْقَوْلُ الثَّانِیْ اِنَّہٗ اِذَا طَلَّقَ ثَلَاثَۃً تََقَعُ وَاحِدَۃٌ رَجْعِیَّۃٌ وَ ھٰذَا ہُوَ المَنْقُوْلُ عَنْ بَعْضِ الصِّحَابَۃِ وَ بِہٖ قَالَ دَاؤدُ الظَّاہِرِیُّ وَ اتباَعُہُ وَ ہُوَ اَحَدُ الْقَوْلَیْنِ لِمَالِکٍ وَ بَعْض اصحاب احمد۔[3] ’’دوسرا قول یہ ہے کہ جب کوئی تین طلاق دے تو یہ ایک طلاق رجعی شمار ہو گی۔ یہ بات بعض صحابہ سے منقول ہے۔ داؤد ظاہری اور اس کے اتباع اس بات کے قائل ہیں۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے دو قولوں میں
Flag Counter