Maktaba Wahhabi

309 - 382
اقسام کے لیے ملاحظہ ہو: کتاب (منہاج المسلم،اردو،ص:۶۴۱، تالیف الشیخنا ابوبکر جابر الجزائری مدرس مسجد نبوی مدینہ منورہ) بریلوی فتویٰ میں اس طلاق کو رجعی تو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک طلاق دینے دوسری طلاق تیسری کے ساتھ مل کر بیوی حرام اور طلاق مغلّظ واقع ہو جائے گی۔‘‘ بلا دلیل ہے کیوں کہ امر واقع یہ ہے کہ دوسری طلاق رجعی ہے اور تیسری بائن۔ قرآن میں دونوں کے احکام علیحدہ علیحدہ بیان ہوئے ہیں۔ پھر طلاق دیے بغیر تیسری طلاق کو شمار میں لے آنا زیادتی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اور مختلف اوقات میں دو کی گنجائش ہے۔ اس کی اصل صورت یہ ہے کہ آدمی طلاق دے کر رجوع کے بعد پھر تیسری طلاق دے (اور ہر ماہ طلاق دینا غیر مستحسن عمل ہے) یہ بائن مغلظ بنے گی۔ نیز واضح ہو کہ طلاق سنت کا اصل طریقہ یہ نہیں جو فتویٰ میں درج ہے بلکہ اصل صورت یوں ہے کہ ’’اس طہر میں ایک طلاق دینا جس میں جماع نہیں ہوا طلاقِ سنّی کہلاتاہے۔ قرآن میں ہے: ﴿ ٰیاََیُّہَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ﴾ (الطلاق:۱) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! (لوگوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔‘‘ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں ہے: (( وَطَلاَقُ السُّنَّۃِ: أَنْ یُطَلِّقَہَا طَاہِرًا مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ، وَیُشْہِدَ شَاہِدَیْنِ ۔)) [1] صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مشہور روایت میں ہے: (( وَإِنْ شَاء َ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ۔)) [2] اور حالت ِ حمل میں بھی طلاق سنی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (( ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا، أَوْ حَامِلًا۔))[3] اصل مسئلہ کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حکم ایک جیسا ہے۔‘‘ یہ بھی یاد رہے کہ رجوع کے لیے وطی شرط نہیں بلکہ زبانی کلامی کافی ہے۔جس طرح کہ عورت کی رضامندی بھی
Flag Counter