Maktaba Wahhabi

100 - 382
بلا اجازت ولی، کورٹ میں نکاح کی حیثیت: سوال :ہماری فیملی کی ایک بچی نے بغیر کسی سے پوچھے ماں، باپ، بہن بھائیوں کی رضامندی کے خلاف کورٹ میں جا کر نکاح پڑھوا لیا ہے۔ ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اُس کا نکاح ہو گیا ہے یا کہ نہیں؟ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ بچی جہاں پر شادی کرنا چاہتی تھی وہ لڑکا کسی طور بھی اس قابل نہ تھا کہ اس کے ساتھ اس کا رشتہ منظور کر لیا جاتا۔ اس لیے بچی کے والدین نے اس کی منگنی ایک بہت ہی اچھی فیملی میں کردی۔ منگنی کے وقت بچی سے اس بارے میں رائے بھی لی گئی تو اس وقت ہاں کردی۔ لیکن منگنی کے چند دنوں بعد اس نے کورٹ میں جا کر دوسرے لڑکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ جس کو اُس کے والدین نے مسترد کیا تھا۔ میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا بچی کا نکاح ہو گیا ہے یا کہ نہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم دنیا داری اور معاشرے میں اپنی عزت کے لیے بچی کا شرعی طور پر نکاح دوبارہ پڑھوا سکتے ہیں کہ نہیں، اس کے علاوہ ہم نکاح نامے پر جو حق مہر( معجل اورغیر معجل) لکھوائیں گے اس کی حیثیت پہلے نکاح نامے کی موجودگی میں ( جو کہ کورٹ میں کیا گیا ہے) کیا ہو گی۔ مہربانی فرما کر بحوالہ قرآن و حدیث ہمیں اس ذہنی اذیت سے نجات دلائیں۔ شکریہ ( عرفان جاوید، لاہور) (۲۵ نومبر۱۹۹۴ء) جواب :کتاب ’’الامّ‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے: (( لَا نِکَاحَ إلَّا بِشَاہِدَیْ عَدْلٍ وَوَلِیٍّ مُرْشِدٍ۔))[1] ’’یعنی دو عادل گواہوں اور ہدایت والے ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے : (( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ۔)) [2] یعنی ’’ جو عورت ولی کے اذن کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ ولی کے پیش نظر لڑکی کی بھلائی تھی۔ اس کے باوجود لڑکی کا استبداد ناقابلِ اعتبار فعل ہے۔ لہٰذا ولی جہاں مناسب سمجھے دوبارہ لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے، پہلے فرضی خاوند سے اجازت یا طلاق کی چنداں ضرورت نہیں۔[3]
Flag Counter