Maktaba Wahhabi

386 - 382
دورانِ عدت اگر خاوند رجوع کرلے تو مجلس شادی خانہ آبادی کے نوٹس کی حیثیت: سوال : ن، ع بخاری نے اپنی بیوی س، ع طارق کو جس سے دو بچے( بعمر ۷،۵ سال) ہیں ، باہمی اختلاف کی بناء پر جس میں وہ ناراض ہو کر گھر سے چلی گئی تھی اور ۶ ماہ تک دور رہنا چاہتی تھی۔قانونی طور پر طلاق کا نوٹس بھجوا دیا۔ جس میں’’طلاق ثلاثہ‘‘ کے الفاظ(طلاق+ طلاق+ طلاق) درج تھے۔ قانونی نوٹس بھیجنے کے تین ہفتے بعد میں نے اسے فون کرکے نوٹس کی اطلاع دی اور بتایا کہ میں نے تمھیں طلاق دے دی اور طلاق کا نوٹس بھیج دیا ہے ، نوٹس ملنے کا اس نے انکار کیا اور مزید ناراض ہو گئی۔ میں نے عدت کی مدت( تین ماہ) پوری ہونے سے قبل اس طلاق سے رجوع کرلیا، فون پر بھی اس کو مطلع کیا دوسروں نے بھی مفاہمت کے لیے اس کو سمجھایا میں نے خود مل کر اسے منانے کی کوشش کی مگر وہ راضی نہ ہوئی۔ میں یہ سمجھتا رہا کہ جب تک طرفین کی رضا مندی نہ ہو رجوع ثابت نہیں ہو سکتا اور اسی لیے قانونی طور پر اس عدت( جس میں اسے راضی نہ کر سکا) کے دوران رجوع کی کارروائی نہ کر سکا۔ اوراسی دوران مجلس شادی خانہ آبادی نے تین بار ایک ایک ماہ کے وقفے سے طلاق کا نوٹس جاری کردیا اور بعد میں طلاق ثلاثہ نافذ کردی۔ ہمارے والدین نے مختلف علمائے دین سے رجوع کیا تو پتہ چلا کہ حلالے کے بغیر اب حلال نہیں ہوسکتی ہے ، میں نے کچھ علمائے کرام سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک طلاق شمار ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتا تھا، میں نے اپنے والدین کو اس فتوے سے آگاہ کیا جسے ہم نے معلوم کیا تھا تو انھوں نے دوبارہ عالم دین سے رجوع کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ شیعوں کا فتویٰ ہے۔ مذاہب ِ اہل سنت کا فتویٰ اس کے خلاف ہے۔ ہم دونوں میں اب مکمل مفاہمت ہو چکی ہے کوئی ناراضگی باقی نہیں، تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہمیں اس صورت میں کتاب و سنت کی روشنی میں اب اپنی زندگی شرعی طور پر گزارنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کتاب و سنت سے مدلل جواب دیں تاکہ ہم اپنے اطمینان کے ساتھ والدین کو بھی مطمئن کرسکیں۔ (المستفتی ، ن، ع بخاری) (۶ جون ۲۰۰۳ء) جواب : اصل بات یہ ہے کہ طلاق واقع کرنے میں مکمل طور پر مرد کا اختیار ہے۔ اسی طرح رجوع کرنے میں بلا شرکت ِ غیرے اسی کا استحقاق ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَ بُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا﴾ (البقرۃ: ۲۲۸) ’’اور ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تواس(مدت) میں وہ انکو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ راجح مسلک کے مطابق تین اکٹھی طلاقوں سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’عہدِ نبوی اور عہدِ ابوبکر اور خلافتِ عمر کے ابتدائی دو برس تک تین طلاقیں(مجلس واحد کی)
Flag Counter