Maktaba Wahhabi

80 - 382
’’یعنی مستحب یہ ہے کہ ایجاب و قبول سے قبل خطبہ کرنے والا پڑھے یا اس کے علاوہ دوسرا آدمی۔‘‘ ۲۔خطبۂ ایجاب و قبول سے قبل ہونا چاہیے۔ حدیث میں ہے: کُلُّ أَمْرٍ ذِی بَالٍ، لَا یُبْدَأُ فِیہِ بِالْحَمْدِ، أَقْطَعُ ۔ [1] ’’یعنی ’’ہر ذی شان کام بے برکت ہوتا ہے جو بلا ’’اَلْحَمْدُ‘‘ شروع کیا جائے۔‘‘ ۳۔دلہن کو ایجاب و قبول کرانے کا شرع میں کوئی ثبوت نہیں۔ دلہن کی طرف سے اس کی رضا مندی اور ولی کی اجازت ہی کافی ہوتی ہے۔ حدیث الخاتم میں ہے: اِذْھَبْ فَقَدْ اَنْکَحْتُکَھَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ[2] حدیث ہذا میں صرف دولہا کے ایجاب کا ذکر ہے عورت کا نہیں۔ اہل اصول کے ہاں قاعدہ معروف ہے: تَاخِیْر الْبَیان عَنْ وَقتِ الْحَاجَۃِ لَایَجُوْزُ معلوم ہوا ایجاب و قبول کا تعلق صرف مرد سے ہے عورت سے نہیں۔ ۴۔عورت کو ایجاب و قبول اور وکیل مقرر کرنے کی ضرورت نہیں۔ نکاح میں اس کی نیابت کے لیے صرف ولی ہی کافی ہے۔ ۵۔پہلے گزر چکا ہے عورت کو ایجاب قبول کی ضرورت نہیں پھر رجسٹر وغیرہ میں نکاح کا اندراج محض رسمی اور تنظیمی کارروائیاں ہیں۔ اصل نکاح سے ان کا تعلق نہیں۔ عورت کی طرف سے ولی مختار و مجاز ہے۔ وکیل کی ضرورت نہیں۔ ۶۔خطبہ دونوں طرح درست ہے بیٹھ کر پڑھا جائے یا کھڑے ہو کر، حدیث میں ہے: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ ۔[3] دوسری روایت میں ہے: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ قَائِمًا ۔ [4] (تعاقب) ایجاب و قبول کا صحیح مفہوم: بعد از سلام مسنون گزارش ہے کہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور مورخہ ۸ جولائی ۱۹۹۴ء، ص۸ میں، احکام و مسائل از
Flag Counter