Maktaba Wahhabi

249 - 418
حضرت یوسف علیہ السلام نے صراحت کی کہ انھوں نے کوئی نیا دین نہیں گھڑا۔ وہ صرف اپنے ان آباء واجداد کے دین پر عمل پیرا تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے صحیح عقیدے کی ہدایت دی تھی۔ واضح رہے کہ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توحید ہے اور یہ کسی دور میں بھی تبدیل نہیں ہوا ۔یہاں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی طرف ایک ایسا عقیدہ وحی کیا ہے جس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک رسول سے دوسرے رسول تک پہنچتے پہنچتے متنا قض اور متضاد ہو جاتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت ایسی دعوت ہے جس کی تمام انبیاء نے یکساں طور پر تاکید اور توثیق کی ہے۔[1] اس گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اٹل ایمان رکھنے کی وجہ سے ان سب رسولوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ایک ہی تھی لیکن یہ دعوت پیش کرنے کے بعد ان میں سے ہر نبی کا اسلوب مختلف ہو گیا، چنانچہ نوح علیہ السلام کی قوم نے جب ان کی نافرمانی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی تو انھیں اپنی قوم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف لاحق ہو گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم پر واضح کیا کہ ان کے پاس روشن دلیل اورکھلی علامت اللہ تعالیٰ کی اونٹنی کی صورت میں آچکی ہے، لہٰذا وہ اسے چھوڑ دیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچائیں کیونکہ آپ کو خوف تھا کہ ان پر درد ناک عذاب نازل ہو گا۔ دیگر انبیاء کے احوال بھی اسی طرح آئے ہیں۔ عہدِ قدیم کی ہر قوم کے سرداروں کی طرف سے اپنے رسول کی مخالفت سے یہ معاملہ کُھل کر واضح ہو جاتا ہے۔ پس نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ پر گمراہی کا الزام لگایا، حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے آپ پر بے وقوفی اور جہالت کی تہمت لگائی اورصالح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی
Flag Counter