Maktaba Wahhabi

397 - 382
پھر یہ امر بدیہی ہے کہ والد کے دل و دماغ میں اولاد کی خیرخواہی کا احساس پیدا ہو گا تو یقینا وہ اولاد کے لیے رشد و ہدایت کی دعا کرے گا۔ اس طرح سے وہ رب کے حضور بری الذمہ قرار پائے گا۔ کیا بچے کی نسبت غیر باپ کی طرف ہو سکتی ہے؟ سوال :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ایک صاحب کا ایک ہی نوجوان بیٹا فوت ہونے کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی ان کی بیوی نے اپنے ہی بھائی کے دو بچے لڑکی اور لڑکا گود لے لیا۔ پڑھایا لکھایا بچی کی شادی کی گئی دونوں بچوں کے تعلیمی کاغذات اور اسناد میں ان کی ولدیت اپنی ہی( صاحب مذکور کی ) لکھی جاتی رہی۔ اب محسوس ہوا کہ یہ غلط ہوا ہے؟ بچوں کی نسبت اصل باپ کی طرف ہی ہونی چاہیے تھی۔ آپ مشورہ دیجیے کیا کیا جائے؟(امین محمد خان جام پور) (۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء) جواب :’’سورۃ الاحزاب‘‘ کی آیت نمبر ۵کے مطابق بچوں کا انتساب حقیقی باپ کی طرف ہونا چاہیے۔ لیکن مفسر قتادہ نے کہا ہے کہ اگر اصلی باپ معروف و معلوم ہو تو دوسرے کی طرف نسبت کاکوئی حرج نہیں۔ قرآنی حکم نازل ہونے کے بعد بھی حضرت مقداد کی نسبت اصلی باپ ’’عمرو‘‘ کی بجائے نسبت تبنی(لے پالک) ابن الاسود جاری و ساری رہی۔ کتب احادیث میں بلا نکیر محدثین نے اس کا استعمال کیا ہے۔ بطورِمثال ملاحظہ ہو: صحیح البخاری کتاب النکاح ، باب الاکفاء فی الدین اور فتح الباری(۹/۱۳۵)۔ حالانکہ وہ فرماتے تھے کہ’’انا ابن عمرو‘‘ (تفسیر قرطبی:۱۴/۱۲۰) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَاشتھرَت شُھْرَتُہ بِابْنِ الاَسْوَدِ ۔)) [1] ’’ان کی شہرت ابن اسود کے ساتھ ہی رہی۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہرت کی بناء پر موجودہ انتساب کو باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن اصل یہی ہے کہ حقیقی باپ کی طرف نسبت کی جائے جس طرح نص قرآنی میں ہے۔ کاروبار کی خاطر غیر باپ کی طرف نسبت: سوال : ہمارے علاقے کے بعض لوگ گزشتہ پچیس تیس سال سے ملازمت کے لیے ہانگ کانگ گئے ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ سے وہاں کی گورنمنٹ نے قانون سخت کردیا ہے۔ وہاں پہلے سے موجود لوگ اپنے کسی عزیز کو اپنا بیٹا یا سسر ظاہر کرکے لے جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے قریبی عزیزوں کو وہاں بلایا جا سکتا ہے ،چنانچہ وہ اپنے دوستوں کو کاغذات میں اپنا بیٹا، باپ یا سسر ظاہر کرکے لے جاتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ہم حقیقت میں تو ان کو اپنا باپ نہیں سمجھتے بلکہ
Flag Counter