Maktaba Wahhabi

252 - 382
ہے۔ مسئلہ طلاق کے ضمن وعید الٰہی ہے۔ ﴿وَ لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ﴾ (البقرۃ:۲۳۱) ’’اور اللہ کے احکام کو ہنسی(اورکھیل) نہ بناؤ۔‘‘ آیت ہذا کی تفسیر میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((فَإِنَّہَا جِدٌّ کُلُّہَا، فَمَنْ ہَزَلَ فِیہَا فَقَدْ لَزِمَتْہُ، نَہَاہُمْ سُبْحَانَہُ أَنْ یَفْعَلُوا کَمَا کَانَتِ الْجَاہِلِیَّۃُ تَفْعَلُ، فَإِنَّہُ کَانَ یُطَلِّقُ الرَّجُلُ مِنْہُمْ أَوْ یُعْتِقُ أَوْ یَتَزَوَّجُ وَیَقُولُ: کُنْتُ لَاعِبًا۔ قَالَ الْقُرْطُبِیُّ وَلَا خِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَاء ِ أَنَّ مَنْ طَلَّقَ ہَازِلًا أَنَّ الطَّلَاقَ یَلْزَمُہُ۔)) (بحوالہ زبدۃ التفسیر من فتح القدیر،ص:۴۶) [1] ماحصل اس کا یہ ہے کہ ہنسی مذاق سے یقینا طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ پھر شوہر کایہ ادّعاء کہ’’ تیسری طلاق چونکہ میں نے مجامعت والے طہر میں دی ہے لہٰذا وہ بھی واقع نہیں ہوئی۔‘‘ غیر درست ہے ایسی طلاق کو شرع میں طلاق بدعی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طلاقِ بدعی کے بارے میں اہل علم کے دو اقوال میں سے دلائل کے اعتبار سے راجح مسلک یہ ہے کہ وہ واقع ہوجاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی’’صحیح‘‘ میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِکَ الطَّلاَقِ۔ پھر قصۂ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے استدلال کیا ہے بذاتِ خود ابن عمر رضی اللہ عنہما کابیان ہے:’حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیقَۃٍ[2] اور محترم شیخ الحدیث صاحب کا فتویٰ محل نظر ہے اس سے موافقت کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائے۔آمین پہلے نکاح کی دی ہوئی طلاق دوسرے نکاح کے بعد شمار میں آئے گی؟ سوال : الاعتصام ۱۴ جون ۱۹۹۶ء کے صفحہ ۹ پر میرے سوالات نمبر ۳،۴ کے جواب کا ملخص یہ ہے کہ ایک خاتون پہلی طلاق کے بعد کسی دوسرے سے شادی کرلیتی ہے پھر بوجوہ پہلے خاوند سے پھر نکاح کرلیتی ہے۔ تو پہلے نکاح کی دی ہوئی طلاق بھی آئندہ شمار میں آئے گی اور اگر تین طلاقوں کے بعد ایک خاتون نے دوسرے مرد سے شادی کر لی پھر بوجوہ پہلے شوہر سے پھر نکاح کرلیا تو متفقہ طور پر شوہر تین طلاقوں کا مالک ہو گا۔ پہلی دو رجعی ہوں گی۔
Flag Counter