Maktaba Wahhabi

282 - 382
(( ثُمَّ لِیُطَلِقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا۔))[1] ’’پھر اسے چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔‘‘ مذکورہ مسئلہ میں شوہر سے علیحدگی چونکہ طلاقِ رجعی کی صورت میں ہوئی ہے اور عدت(وضع حمل کی صورت میں) گزر چکی ہے ، اس بناء پر عورت اگر اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو کرسکتی ہے اس نکاح کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو عام حالات میں ہے۔ یعنی نکاح باجازتِ ولی ہونا، حق مہر کا تقرر حسب ِ شریعت گواہوں کا مقرر کرناوغیرہ۔ حالت ِحیض میں طلاق حالت ِ حیض میں طلاق شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ سوال : راجح موقف کے مطابق حالتِ حیض میں دی گئی طلاق شمار ہوتی ہے یا نہیں؟(سائل) (۲۴نومبر۱۹۹۵ء) جواب : ظاہر یہ ہے کہ حالت ِ حیض میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا[2] یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہہ حالت ِ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع کرلے۔ رجوع وقوع کو مستلزم ہے۔ بذاتِ خود ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے۔ یہ طلاق شمار ہوئی تھی۔ فرمایا ’حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیقَۃٍ[3] امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی ’’صحیح‘‘ میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے فرمایا: بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِکَ الطَّلاَقِ۔ کیا حالت حیض میں طلاق شمار ہوگی؟ سوال : محترم جناب مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب زید مجدک۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کے لیے درخواست ہے ۔ امید ہے تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔ تقریباً چار سال قبل ہندہ کی شادی زید سے ہوئی۔ ایک سال گزرنے کے بعد دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے۔ نتیجتاً ہندہ میکے گھر آگئی۔ جب کہ زید بسلسلہ روزگار بیرون ملک چلا گیا۔ بیرونِ ملک جا کر زید نے تحریراً طلاق بھیج دی۔ پھر ابھی
Flag Counter