Maktaba Wahhabi

334 - 382
شوہر کو بھائی بھی کہا گیا۔ اس کے بعد اس کے شوہر نے اس سے کہا کہ اگر تیرا دل نہیں چاہتا اور تونے قرآن مجید اٹھا لیا ہے ۔ جو تو چاہتی ہے اس کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا۔ صبح اس کے لیے فیصلہ کرنا تھا۔ رات کو وہی عورت رونے لگ گئی کہ میں نے یہ غلطی کی ہے اور اس وقت فیصلہ یہ ہوا کہ اب تو نے قرآن مجید اٹھا لیا ہے۔ اب اس گھر سے تیرا تعلق ختم ہے۔ اس وقت عورت نے کہا مجھے طلاق نہ دی جائے۔ تمہارا جو مقصد ہے میرے جانے سے پورا ہو جائے گا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مجھے کوئی اچھا گھر مل گیا تو مجھے میرے طلب کرنے پر تحریری طلاق دی جائے۔ یہ فیصلہ دونوں کے درمیان طے پا گیا۔ عرصہ چھ ماہ کے بعد وہی عورت دوبارہ اپنے شوہر کے پاس گھر آنا چاہتی ہے۔ا ور یہ چاہتی ہے کہ مجھے اس گھر میں رکھ لیا جائے جب کہ اس کا شوہر اسے لینے نہیں گیا تھا۔ وہ عورت خود آئی ہے۔ جو اب مطلوب ہے کہ وہ عورت اپنے شوہر کے گھر دوبارہ رہ سکتی ہے ؟ یا دوبارہ وہ عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرے اور وہ مرد اسے طلاق دے۔ پھر اپنے شوہر سے تعلق استوار کرے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب مطلوب ہے۔ ( ایک سائل) (۱۴ جون ۱۹۹۶ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں خاوند کا یہ کہنا کہ’’ اب اس گھر سے تیرا تعلق ختم ہو چکا ہے۔‘‘ طلاقِ کنائی کی قبیل سے ہے مذکورہ شکل میں طلاق کے مؤثر ہونے کی بناء پر زوجین میں تفریق ہو چکی ہے۔ اب اگر بہ نیت اصلاح سابقہ شوہر اس عورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لانے کا خواہش مند ہو تو عقدِ جدید ہو سکتاہے۔ ’’مجھ سے دُور ہو جا‘‘بہ نیت طلاق کہنے کا کیا حکم ہے؟ سوال :عورت کو بارادہ طلاق اگر کہہ دیا جائے کہ مجھ سے دُو ر ہو جا ، یا بد دعاء کے طور پر کہہ دے کہ تو مرجائے اور مذکورہ الفاظ میں نیت جدائی کی ہو۔ اور یہ معاملہ کتنی دفعہ پانچ سات مرتبہ یا اس سے زیادہ دفعہ ہوتا رہا مگر ہر مرتبہ ایک ماہ کی مدت گزرنے سے پہلے صلح صفائی بھی ہو جاتی رہی۔ اس بارے میں شرعی حکم مطلوب ہے۔(سائل عطا ء اللہ شاہ بمقام بڑھے والا، چک نمبر ۱۰۲، ر، ب۔ ڈاکخانہ خاص تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد) ۹ اگست۱۹۹۱،ص:۸۰۵ جواب :مذکورہ الفاظِ مستعملہ سے چونکہ شوہر کا ارادہ طلاق تھا۔ اس لیے طلاق بائن واقع ہو چکی ہے لہٰذا زوجین کے درمیان فوراً تفریق کرادی جائے۔ ’’میں تجھے فارغ کرتا ہوں‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم سوال : ۱۔ خالد نے اپنی بیوی کو کچھ عرصہ قبل یہ الفاظ لکھ کر دے دئیے کہ (میں تجھے فارغ کرتا ہوں) اب سے یہ بھی یاد نہیں کہ اس کی نیت کیا تھی۔ کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ ۲۔ خاوند نے بعد میں رجوع کر لیا۔ تقریباً دو ماہ بعد بیوی نے اس خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا تو خاوند نے
Flag Counter