Maktaba Wahhabi

393 - 382
کفالت کا ذمہ دار صرف اسی وقت ہے کہ جب لبنیٰ گل اس کے پاس رہائش پذیر ہو۔ (سائل، شیخ غلام ربانی ایڈووکیٹ، لیہ شہر) (۲۴ ستمبر ۱۹۹۳ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں لبنیٰ گل کا نفقہ وغیرہ بہ ذمہ والد ہے۔ چاہے وہ والدہ کے ساتھ ہو یا والد کے ساتھ جب تک کہ والد اس کا نکاح نہیں کردیتا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: (( وَذَہَبَ الْجُمْہُورُ إِلَی أَنَّ الْوَاجِبَ أَنْ یُنْفِقَ عَلَیْہِمْ حَتَّی یَبْلُغَ الذَّکَرُ أَوْ تَتَزَوَّجَ الْأُنْثَی ثُمَّ لَا نَفَقَۃَ عَلَی الْأَبِ إِلَّا إِنْ کَانُوا زَمْنَی فَإِنْ کَانَتْ لَہُمْ أَمْوَالٌ فَلَا وُجُوبَ عَلَی الْأَبِ وَأَلْحَقَ الشَّافِعِیُّ وَلَدَ الْوَلَدِ وَإِنْ سَفَلَ بِالْوَلَدِ فِی ذَلِکَ ۔))[1] ’’یعنی جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ باپ پر اولاد کا نفقہ واجب ہے حتی کہ لڑکا بالغ ہو یا لڑکی کی شادی ہو جائے۔ اس کے بعد باپ کے ذمہ کوئی خرچہ نہیں۔ الا یہ کہ اولاد معذور ہو۔ پس اگر اولاد صاحب ِ حیثیت ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ نے اولاد در اولاد کو بھی نیچے تک حکم ِ ہذا میں اولاد کے ساتھ ملحق کیا ہے۔‘‘ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں مسئلہ پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (( بَابُ وُجُوبِ النَّفَقَۃِ عَلَی الأَہْلِ وَالعِیَالِ ۔)) ’’یعنی آدمی پر اہل و عیال کا نفقہ واجب ہے۔‘‘ پھر استدلال میں مشہور حدیث : ’وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ تَقُولُ المَرْأَۃُ: إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِی، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِی، وَیَقُولُ العَبْدُ : أَطْعِمْنِی وَاسْتَعْمِلْنِی، وَیَقُولُ الِابْنُ: أَطْعِمْنِی، إِلَی مَنْ تَدَعُنِی[2] نقل کی ہے۔ بایں صورت عورت والد سے بچوں کے لیے خرچہ کا مطالبہ نہیں کر سکتی؟ سوال :میاں بیوی کو طلاق دیتا ہے جس کے بطن سے دو بچے بھی ہیں۔ بیوی اور اس کے رشتہ داروں کے اصرار پر باپ بچے اپنے سابقہ بیوی کو دے دیتا ہے۔ اور تحریری طور پر یہ طے کیا جاتا ہے کہ بچوں کی ماں بچوں کے خرچہ کے بارے میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کرے گی لیکن بعد میں جب باپ دوسری شادی کر تا ہے تو پھر بچوں کی ماں بچوں کے خرچہ کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ وہ خود برسرِ روزگار ہے۔ اور پانچ چھ ہزار اس کی ماہانہ آمدنی ہے۔ بچوں سے اس نے آج تک ملاقات بھی نہیں کرائی۔ بچوں کی عمر اس وقت ۹ اور ۱۲ سال ہے۔
Flag Counter