Maktaba Wahhabi

170 - 382
’’ وہ رضاعی اعتبار سے میرے بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘ (حررّہ محمد انور القادری، استاد جامع نعیمیہ لاہور) سوال : ہمارے خاندان کی ایک لڑکی لطیفہ بی بی نے اپنی خالہ حشمت بی بی کا رضاعت کی عمر میں دودھ پیا۔ اب حشمت بی بی جو کہ لطیفہ بی بی کی رضاعی والدہ ہے۔ اپنے حقیقی بیٹے کے لیے لطیفہ بی بی کی بیٹی کارشتہ مانگتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائی جائے۔ جواب : لطیفہ بی بی کی بیٹی حشمت بی بی کی رضاعی نواسی ہے اور اس کے بیٹے کی رضاعی بھانجی ہے اور شرعاً ماموں بھانجی کا آپس میں نکاح حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: عَنْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الوِلاَدَۃِ۔[1] ’’یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کاآپس میں نکاح حرام ہے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ۔) (کتبہ شیر محمد علوی۔ دارالافتاء جامع اشرفیہ لاہور) جواب : (از شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی): علمائے محققین و فقہائے محدثین کے ہاں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ فرموداتِ الٰہی کے مطلق کو مقید کرنا یا عام کو خاص یا اجمال کی تفصیل کرنا اور مرادِ الٰہی کا تعین کرنا صرف آپ ہی کا کام ہے کیونکہ آپ کے اوصافِ حمیدہ سے ہے: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی﴾ (النجم:۳) ’’اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات وحی الٰہی ہے۔ اسی بناء پر نماز زکوٰۃ حج اور روزے کے بہت سارے قرآنی مسائل کی توضیح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ اسی طرح مسئلہ حرمت ِ رضاعت قرآن میں مطلق بیان ہوا ہے۔ جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے: عَنْ عَائِشَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّۃُ وَالْمَصَّتَانِ[2] ’’ ایک دفعہ چوسنا، دو دفعہ چوسنا حرمت پیدا نہیں کرتا۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے :
Flag Counter