Maktaba Wahhabi

288 - 382
جواب یہ ہے کہ اہلِ علم کے نزدیک بالاتفاق دونوں خونوں کا حکم اس امر میں ایک جیسا ہے۔ فقیہ ابنِ قدامہ رقمطراز ہیں: وَحُکْمُ النُّفَسَائِ حُکْمُ الْحَائِضِ فِی جَمِیعِ مَا یَحْرُمُ عَلَیْہَا، وَیَسْقُطُ عَنْہَا، لَانَعْلَمُ فِی ہَذَا خِلَافًا ۔[1] مشارٌ الیہ فتوؤں میں سے پہلا مذکورہ دلائل کی روشنی میں درست و صواب ہے۔ حالت ِ نشہ میں طلاق نشہ آور دوا استعمال کرنے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم: سوال : میں نے اپنی بیوی کو چار مرتبہ طلاق دی ہے اور یہ چاروں مرتبہ طلاق میری بیوی نے مجھے کہا ہے یا ان لوگوں نے جو اس وقت موجود تھے، جب میں نے طلاق کے الفاظ کہے اس وقت میرا دل اور دماغ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور یہ طلاق عرصہ بارہ (۱۲) سال کے اندر دی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ میں مرگی کی تکلیف میں تیس سال سے مبتلا ہوں اور مرگی کی ایک دوا ہے جس کے استعمال سے میرا دل اور دماغ میرا ساتھ نہیں دیتے اور اتنی نشہ والی دوا ہے کہ اس کے استعمال سے دورہ نہیں پڑتا۔ مجھے یہ دوا استعمال کرکے ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ہوش نہیں رہتا اور غصہ کی حالت میں ایسی کیفیت ہوجاتی ہے۔ چھت سے چھلانگ بھی لگا دی اور مجھے کچھ علم نہیں ہوا۔ میری زندگی میں ایسے بہت سارے واقعات گزر چکے ہیں لہٰذا قرآن اور سنت ایسی حالت میں کیا حکم دیتے ہیں؟ (عبداللہ) (۱۶ مئی ۲۰۰۸ء) جواب :’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: لَیْسَ لِمَجْنُوْنٍ وَ لَا لِسَکْرَانَ طَلَاقٌ ۔ ’’دیوانے اور نشہ والے کی طلاق کا اعتبار نہیں۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرِہِ لَیْسَ بِجَائِزٍ۔ یعنی نشہ والے اور مکرہ(مجبور کیے ہوئے) کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ قصہ علی اور حمزہ جس میں یہ ہے کہ نشہ کی حالت میں حمزہ رضی اللہ عنہ نے نازیبا کلمات کہے اس پر حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں: وَہُوَ مِنْ اَقْوٰی اَدِلَّۃٍ مَنْ لَمْ یُؤَاخِذِ السَّکْرَانَ بِمَا یَقَعُ مِنْہُ فِی حَالِ سَکْرِہِ مِنْ طَلَاقٍ وَ غَیْرِہِ ۔[2]
Flag Counter