Maktaba Wahhabi

287 - 418
’’قرآن کریم جب بھی اور جہاں بھی رونق افروز ہو، وہ دعوت دینے والا اور ڈرانے والا ہے۔‘‘ پھر انھوں نے بطور استدلال یہی آیت تلاوت کی:﴿لأُِنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾’’تاکہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں اور جس جس تک یہ پہنچے، اُن سب کو ڈراؤں۔‘‘[1] (1) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے نبی!) یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ہے، اس سے آپ کے سینے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈرائیں اور یہ مومنوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ [2] اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ کفار کو قرآن کریم کے ذریعے سے ڈرائیں اور مومنوں کو نصیحت کریں، کیونکہ قرآن کریم ہر اس چیز کا حامل ہے جس کے بندگانِ رب العزت دنیا و آخرت میں محتاج ہیں، نیز یہ حکم اس لیے بھی دیا گیا ہے کہ صرف مومنین ہی اس کی ہدایت سے مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا داعی اور مبلغ جب قرآن کے ذریعے سے قرآن کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس کے دل و دماغ میں کسی قسم کا کوئی شک، تردد اور تنگی نہ ہو۔ اس آیت کریمہ میں ’’حَرَجٌ‘‘ سے یہی مراد ہے کہ کسی قسم کی تنگی اور شک و شبہ داعی کے دل میں نہ ہو کیونکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب ہے۔ باطل کسی طور اس کتاب کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا، لہٰذا داعی کو کامل انشراح صدر ہونا چاہیے اور اس پر اس کا
Flag Counter