Maktaba Wahhabi

193 - 382
سے ہے۔ کسی کو ایک سے زائد نکاح کرنے سے روکنا درست بات نہیں ہے۔ یہ معاملہ ہر انسان کی استطاعت پر منحصر ہے۔ ایک بیوی کا دوسری کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنا؟ سوال :زید اور عورت نمبر ۱ عرصہ پندرہ سولہ سال سے ایک ساتھ ازدواجی طور پر ایک ساتھ منسلک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد سے ابھی تک نہیں نوازا۔ اب زید نے عورت نمبر۲ سے نکاح کیا۔ لیکن عورت نمبر۱ اس عمل پر ناخوش ہوئی اور اس نے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کا اصرار تھا کہ عورت نمبر ۲ کو زید طلاق دے دے۔ زید نے عورت نمبر۱ کی خوشنودی کی خاطرعورت نمبر۲ کو طلاق کی نیت کے بغیر صرف عورت نمبر۱ کی خوشنودی کی خاطر عورت نمبر۲ کو اس کے نام کی ولدیت دانستہ غلط کہہ کر ۳ مرتبہ قرآن مجید کی جانب ہاتھ اٹھا کر طلاق دے دی۔ الفاظ یہ ہیں(عورت نمبر ۲ سے نکاح ہے ،رخصتی ابھی نہیں ہوئی ہے) میں نے حمیرہ فرید کو طلاق دی۔‘‘(۳ مرتبہ) جب کہ عورت نمبر۲ کا پورا نام حمیرہ دختر معین الدین فریدی ہے۔ اس طرح طلاق کی کیا حیثیت ہے؟ (سائل ڈاکٹر جاوید اسلم ) ( ۱۷ ستمبر ۱۹۹۳ء) جواب :عورت نمبر ۱ کا عورت نمبر ۲ کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے۔ حدیث میں ہے کسی عورت کو حلال نہیں کہ اپنی بہن کی طلاق کا سوال کرے تاکہ اس کا برتن الٹا دے کیونکہ اس کے لیے اس کی قسمت ہے۔[1] مذکورہ صورت میں بلا شبہ طلاق واقع ہو چکی ہے۔ مزاحیہ انداز میں صریح الفاظ سے بلانیت بھی طلاق ہو جاتی ہے لہٰذا عدت کے اندر خاوند رجوع کر سکتاہے۔ بصورتِ دیگر عقد جدید بھی درست ہے کیونکہ راجح مسلک کے مطابق ایک وقت کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے۔ ایک فتویٰ کی اصلاح: محترمی جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا تازہ پرچہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ احکام و مسائل کے عنوان کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی مدظلہ العالی کا ایک جواب قابلِ اصلاح ہے پرچہ کے صفحہ ۱۱پر جو جواب حافظ صاحب نے تحریر فرمایا۔ الفاظ یہ ہیں:’’لہٰذا عدت کے اندر خاوند رجوع کر سکتا ہے۔‘‘ یہ جواب لکھتے ہوئے غالباً حافظ صاحب کی نظر سوال میں درج عبارت(صفحہ:۱۰) ’’عورت نمبر ۲سے نکاح ہے رخصتی ابھی نہیں ہوئی‘‘ سے ذھول ہو گیا۔
Flag Counter