Maktaba Wahhabi

86 - 382
مہر کے عوض میں نے اسے تمہارے ساتھ بیاہ دیا ہے ، تو یہ نکاح جائز ہے ہے خواہ وہ شوہر سے قبولیت کا اقرار نہ بھی کروائے۔‘‘ اسی طرح موجودہ حالت میں نکاح نامے پر دستخط قائم مقام قبول کے ہو کر نکاح درست ہے۔ نیز شریعت میں زبان سے ادائیگی کے علاوہ محض عمل کو بھی قابلِ اعتبار سمجھا گیا ہے چنانچہ’’صحیح بخاری‘‘((بَابُ الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ وَالکُرْہِ، …الخ)) کے تحت حدیث ہے: ((إِنَّ اللّٰهِ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ ۔)) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کی نفسانی باتوں سے درگزر فرمائی ہے جب تک وہ عمل یا کلام نہ کرے۔‘‘ اس حدیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ طلاق تحریر میں آنے سے واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے نہ بھی کہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((وَاسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی أَنَّ مَنْ کَتَبَ الطَّلَاقَ طَلُقَتِ امْرَأَتُہُ لِأَنَّہُ عَزَمَ بِقَلْبِہِ وَعَمِلَ بِکِتَابَتِہِ وَہُوَ قَوْلُ الْجُمْہُورِ ۔)) [2] اسی طرح محض نکاح نامے پر دستخط کرنے سے بھی نکاح منعقد ہو سکتا ہے ۔ کیا ٹیلی فون پر نکاح جائز ہے؟ سوال : کیا ٹیلی فون پر نکاح جائز ہے؟ (سائل: رانا عباس للیانی تحصیل و ضلع قصور) (۵ جون ۱۹۹۷ء) جواب :ٹیلی فو ن پر نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ آواز معروف ہو۔ شریعت نے معروف آواز کو قابلِ اعتبار سمجھا ہے۔ اسی بناء پر نابینے اور پردہ نشین عورت کی گواہی کو جائز رکھا ہے۔ ملاحظہ ہو:صحیح البخاری : بَابُ شَہَادَۃِ الأَعْمَی وَأَمْرِہِ وَنِکَاحِہِ وَإِنْکَاحِہِ وَمُبَایَعَتِہِ وَقَبُولِہِ فِی التَّأْذِینِ وَغَیْرِہِ، وَمَا یُعْرَفُ بِالأَصْوَاتِ) ٹیلی فون پر نکاح کی صورت میں وکیل جانبین سے ایجاب و قبول کرسکتا ہے یا نہیں؟ سوال : گزشتہ کسی شمارہ میں ’’احکام و مسائل‘‘ کے باب میں فون پر نکاح کے سلسلہ میں آپ کی رائے مبارکہ پڑھنے کو ملی۔ آپ نے ساتھ یہ شرط لگائی کہ ’’دھوکہ یا فریب کا احتمال نہ ہو۔‘‘ میں دریافت کرنا چاہوں گا کہ: ۱۔ کیا وکیل جانبین سے ایجاب و قبول کر سکتا ہے یا نہیں؟ وکیل کی شریعت میں اگر اجازت ہے تو ہم کیوں محتمل
Flag Counter