Maktaba Wahhabi

405 - 382
فرمایا۔ بحوالہ الروضۃ الندیہ(۲/ ۳۳۷)، أخرجہ مالک (۲/۷۶۷) والبیہقی (۸/۵) ورجالہ ثقات الا ان القاسم بن محمد لم یدرک عمر ۔ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ خبر مختلف منقطع اور متصل طرق سے مشہور ہے۔ اہل علم نے اس کو قولی اور عملی اعتبار سے قبول کیا ہے۔[1] بچی کا خرچہ باپ کے ذمے ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴾ (النساء:۵) ’’اور اس میں سے ان (اولاد) کو روزی دو اور لباس مہیا کرو اور ان کے لیے اچھی بات کہو۔‘‘ شوہر مرحومہ کے ترکے میں سے چوتھے حصے کا حق دار ہے اور آدھے کی بیٹی ہے، باقی دیگر ورثاء کے لیے اپنے اپنے حصص کے مطابق ہے۔ حضانت کی حق دار ماں ہے یا چچا اور دادا؟ سوال : مسماۃ سلمہ بی بی کی شادی شریعت محمدی کے مطابق ۱۹۷۶ء میں محمد زاہد، بیٹی نازیہ بی بی، بیٹی شاہداں بی بی ہے۔ اور محمد شعیب ۱۹۸۷ء کو آج سے ۹ سال قبل ایکسیڈنٹ سے فوت ہوچکا ہے۔ بیوہ سلمہ بی بی عرصہ ۹ سال سے محنت مزدوری کر کے اپنے والدین کے گھر میں رہ کر اپنے تینوں بچوں کو پال رہی ہے۔ اب سلمہ بی بی کے سسرال یعنی بچوں کے داد اور چاچے چھیننا چاہتے ہیں حالانکہ بیوہ سلمہ بی بی نے کسی دوسری جگہ شادی نہ کی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ صرف اور صرف بچوں کو ہی پال رہی ہے۔ ان کے نان نفقہ میں مصروف ہیں کیا شرعی لحاظ سے کتاب و سنت کی روشنی میں ماں اپنے بچوں کی پرورش یا شادی کی حقدار ہیں یا غیر؟ (العارض: مسماۃ بیوی سلمہ بی بی) (۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء) جواب : اصلاً اولاد کی کفالت اور حضانت کی حقدار ماں ہے۔ سنن ابی داؤد وغیرہ میں حدیث ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے فرمایا کہ ((أَنْتِ أَحَقُّ بِہِ مَا لَمْ تَنْکِحِی )) [2] زیرِ حدیث علامہ شوکانی رقمطراز ہیں: (( فِیہِ دَلِیلٌ عَلَی أَنَّ الْأُمَّ أَوْلَی بِالْوَلَدِ مِن الْأَبِ مَا لَمْ یَحْصُلْ مَانِعٌ مِنْ ذَلِکَ بِالنِّکَاحِ لِتَقْیِیدِہِ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - لِلْأَحَقِّیَّۃِ بِقَوْلِہِ: مَا لَمْ تَنْکِحِی وَہُوَ مُجْمَعٌ عَلَی
Flag Counter