Maktaba Wahhabi

406 - 382
ذَلِکَ کَمَا حَکَاہُ صَاحِبُ الْبَحْرِ، فَإِنْ حَصَلَ مِنْہَا النِّکَاحُ بَطَلَتْ حَضَانَتُہَا۔)) [1] ماحصل اس عبارت کا یہ ہے کہ باپ سے زیادہ بچے کی حضانت (پرورش) کی حقدار ماں ہے۔ اس پر علماء کا اجماع ہے بشرطیکہ والدہ دوسری جگہ نکاح نہ کرے۔ نکاح کی صورت میں اس کی کفالت باطل ہو جاتی ہے۔ اور جہاں تک بچوں کے نکاح شادی کا تعلق ہے۔ سو اس سلسلہ میں حقِ ولایت ان کے عصاب کو حاصل ہے۔ اور وہ خیر خواہ ہوں۔ کتاب الامام امام شافعی رحمہ اللہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہیے۔ (( لَا نِکَاحَ إلَّا بِشَاہِدَیْ عَدْلٍ وَوَلِیٍّ مُرْشِدٍ ۔ )) [2] بصورتِ دیگر حقِ ولایت دور کے افراد کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ عورت ولی نہیں بن سکتی۔ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اولاد کے بارے میں ماں سے بھی مشورہ لیا جائے۔ پھر اسے اہمیت بھی دینی چاہیے۔ حدیث میں ہے: (( آمِرُوا النِّسَاء َ فِی بَنَاتِہِنَّ)) [3] حاملہ عورت کتنی دیر تک بچے کو دودھ پلا سکتی ہے؟ سوال :حاملہ عورت کتنی دیر تک اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے جب کہ بچے کو دو سال دودھ نہ ملا ہو۔(۳۰دسمبر۱۹۹۴ء) جواب : رضاعت کے دو سال پورے کرنے ضروری نہیں دودھ زوجین کی باہمی مشاورت سے پہلے بھی چھڑایا جا سکتا ہے۔ حالتِ حمل میں دودھ پلانے کی اسلام میں کوئی پابندی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرنا چاہا تھا لیکن نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم، بَابُ جَوَازِ الْغِیلَۃِ، وَہِیَ وَطْئُ الْمُرْضِعِ، وَکَرَاہَۃِ الْعَزْلِ
Flag Counter