Maktaba Wahhabi

299 - 382
بیک وقت تین طلاقیں : سوال :ایک شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے بیٹھا ہے۔ اب زوجین دوبارہ برضا و رغبت آبادکاری کے خواہاں ہیں۔ کیا شرع میں اس امر کی اجازت ہے ؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔(۶ مارچ ۱۹۹۲) جواب :صورتِ مرقومہ میں طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً [1] دوسری روایت میں ہے: طَلَّقَ رُکَانَۃُ بْنُ عَبْدِ یَزِیدَ أَخُو بَنِی الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَیْہَا حُزْنًا شَدِیدًا، قَالَ: فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم : کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَأَرْجِعْہَا [2] علامہ ابن قیم ’’اعلام الموقعین‘‘ میں حدیث ہذا کے بارے میں فرماتے ہیں: (( وَ قَدْ صَحَّحَ الْاِمَامُ ھٰذَا الاِسْنَاد وَ حَسَّنَہٗ )) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں: (( وَہَذَا الْحَدِیثُ نَصٌّ فِی الْمَسْأَلَۃِ لَا یَقْبَلُ التَّأْوِیلَ الَّذِی فِی غَیْرِہِ مِنَ الرِّوَایَاتِ)) [3] لہٰذا مذکورہ صورت میں عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر عقد جدید بھی درست ہے۔(وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) بیک وقت تین طلاقیں حرام ہیں، تاہم یہ ایک شمار ہوں گی: سوال :ایک شخص کی بیوی بھاگ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی۔ خاوند پہلے ہی عورت سے تنگ تھا۔ اس نے دو مردوں کے رُوبرو اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور ایک اشٹام پر طلاق نامہ تحریر کروا کر سرکاری طور پر سسرال کے گھر بھیج دیا۔ مگر تحریر نامہ میں تین طلاق کا ذکر نہیں۔ بلکہ قطعی حرام لکھا ہے۔ مگر جب اس شخص سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا
Flag Counter