Maktaba Wahhabi

268 - 382
یعنی ’’جب حائضہ عورت کو طلاق دی جائے تو یہ طلاق شمار میں آئے گی۔‘‘ پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیْقَۃٍ ’’میری یہ طلاق شمار ہوئی تھی۔‘‘ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ۔‘ ’’اس کو کہو کہ اس طلاق سے رجوع کرے۔‘‘ حالت حیض میں اگر طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کس سے کیا، نفس حدیث اس بات پر نص ہے کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، انہی لفظوں سے اس حالت میں طلاق کے مؤثر ہونے پر امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال ہے، ناقل حدیث ہذا اگر تھوڑا سا غور کر لیتے تو بات بالکل واضح تھی کہ حیض میں طلاق واقع ہو جاتی ہے، دلائل کے اعتبار سے یہی مسلک راجح ہے۔ نشے، دیوانگی اور زبردستی کی طلاق: نشے اور دیوانگی میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، جس طرح کہ’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمان سے منقول ہے کہ لَیْسَ لِمَجْنُوْنٍ وَلَا لِسَکْرَانَ طَلَاقٌ ۔ حالت اکراہ میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی جس طرح کہ ’’صحیح بخاری‘‘ ہی کے ترجمۃ الباب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مأثور ہے کہ’طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرَہِ لَیْسَ بِجَائزٍ‘ ’’اکراہ‘‘ کا معنی ہے کہ دوسرے کو ایسے کام پر مجبور کرنا جس کا وہ ارادہ نہ رکھتا ہو، اور اس کی چار شرطیں ہیں: 1… جس برے انجام کی دھمکی مل رہی ہے فاعل اس کے کرنے پر قادر ہو اور جسے حکم مل رہا ہو وہ اپنا دفاع کرنے سے بے بس ہو۔ 2… غالب ظن یہ ہو کہ اگر اس نے یہ کام نہ کیا تو حکم دینے والا واقعی اپنی بات پر عمل کر گزرے گا۔ 3… جس بات کی دھمکی دے رہا ہے اس کو فوری کرے۔ 4… مامور سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہو جو اس کے اختیار پر دلالت کرے۔ [1] اگر یہ شرائط پائی جائیں تو پھر طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی، بہ صورتِ دیگر اس کا نام مکرہ نہیں۔ دل کی طلاق: اس سلسلے میں فاضل مضمون نگار کا مؤقف بالکل درست ہے، کیوں کہ بھول کر اور دل ہی دل میں طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ ذکر کردہ نصوص میں تصریح ہے۔ طلاق سنی کا طریق کار وہی ہے جس کی پہلے وضاحت ہو چکی ہے، صرف ایک طلاق پر اکتفا کرنی چاہیے، علیحدگی اسی سے ہو جاتی ہے، ’’سورۃ طلاق‘‘ کے شروع میں اسی کا ذکر ہے، بار بار طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
Flag Counter