Maktaba Wahhabi

142 - 382
جب ان دونوں سے کوئی ایک چیز دل سے نکل جاتی ہے تو عشق کا نشہ بھی ہرن ہو جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ عشق چونکہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے۔ اس لیے اس کا علاج بہرحال ہونا چاہیے۔ اس کے علاج کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک طریقۂ علاج یہ ہے کہ اگر عاشق کو وصال محبوب کی کوئی صورت میسر آجائے خواہ یہ شرعاً ہو یا خوش قسمتی سے ایسے مقدر ہو تو یہی وصال ہی اس کا علاج ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جس کو جماع کی طاقت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔‘‘ حدیث ہذا میں عاشق کے لیے دو طریقہ علاج بتلائے گئے ہیں۔ ایک اصلی اور دوسرا مکافاتی آپ نے اس میں علاج اصلی کی ہدایت فرمائی ہے اور یہی علاج اس بیماری کے لیے قدرتی طور پر وضع ہوا ہے اس لیے کسی دوسرے علاج کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ جب کہ مریض یہ علاج کر سکتا ہو۔ سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی جیسی کوئی چیز ہم نے نہیں دیکھی۔‘ ‘ اور اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے آزاد عورتوں اور لونڈیوں کو بوقتِ ضرورت حلال کرنے کے بعد اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾ (النساء: ۲۸) ’’اﷲ تمھاری تکلیف میں تخفیف کرنی چاہتا ہے (کیونکہ) انسان کی خلقت (عموماً) ضعیف ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس جگہ انسان کی تکلیف کو تخفیف کرنے کا ذکر کیا۔ اور اس کے ناتواں و ضعیف ہونے کی اطلاع دی تا کہ معلوم ہو جائے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کو قابو رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کمزوری کا علاج ایک دو تین اور چار پسندیدہ عورتوں سے شادی کرنے کو مباح کر کے شہوت کی زیر باری سے ہلکا کر دیا۔ علاوہ ازیں لونڈیوں کو بھی اس کام کے لیے مباح فرمایا۔ تاکہ انسان اگر ضرورت محسوس کرے تو اس شہوت کے علاج کے طور پر باندیوں سے بھی نکاح کرے اور اس کا یہ ضعف کہ دوسروں کی طرف متوجہ ہو۔ لونڈیوں سے شادی کر کے جائز طور پر اپنے اس بوجھ کو ہلکا کرے۔ یہ اﷲ کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہے۔ اور عاشق کو وصال محبوب کا کوئی راستہ نظر نہ آئے۔ نہ شرعاً اور نہ مقدر ہی ہو یا دونوں حیثیتوں سے یہ اس کے لیے مشکل ہو، حالانکہ یہ ایک مہلک بیماری ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے دل میں محبوب کی جانب سے مایوسی کا شعور پیدا کرے۔ اس لیے کہ نفس جب کسی شی سے مایوس ہو جاتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے پھر اس کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا۔ اگر مایوسی سے بھی مرض عشق زائل نہ ہو۔ اور طبیعیت پوری طرح انحراف کرتی ہو۔ تو اس کا دوسرا علاج کرنا چاہیے۔ یعنی اپنی
Flag Counter