Maktaba Wahhabi

131 - 382
۶۔ ایسا مسلمان شخص جو خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں جمع کرے اور باوجود علم ہونے اور منع کرنے کے احکام شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑائے اور آئین ِ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے صریحاً انحراف کرے ایسا مسلمان کس درجہ سے تعلق رکھتا ہے اور کیا حد ہو گی؟ (۱) مسلم۔ (۲) کافر۔ (۳) مرتد۔ ۷۔ پہلی بیوی کے نکاح پر اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ نیز اہل علاقہ کے لیے کیا حکم ہے؟ (سائل: مقصود احمد ڈھلوں) (۱۵ ستمبر ۲۰۰۰ء) جواب : ۱۔ بلاشبہ سوال میں مذکور عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ میں حدیث ہے۔ (( لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ المَرْأَۃِ وَعَمَّتِہَا، وَلاَ بَیْنَ المَرْأَۃِ وَخَالَتِہَا)) [1] ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اور اس کی پھوپھی کو جمع نہ کیا جائے اور نہ عورت اور اس کی خالہ کو جمع کیا جائے۔‘‘ چنانچہ مذکورہ صورت میں پہلا نکاح درست ہے۔ اور دوسرا باطل قرار پائے گا۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ’’عام اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے ہمیں اس میں ان کے درمیان اختلاف معلوم نہیں ہو سکا۔ آدمی کے لیے حلال نہیں کہ عورت اور اس کی پھوپھی بیک وقت نکاح میں جمع کرے یا عورت اور اس کی خالہ کو جمع کرے پس اگر عورت کی پھوپھی یا خالہ پر اس سے نکاح کرے یا پھوپھی سے بھتیجی کی موجودگی میں نکاح کرے۔(( فَنِکَاحُ الْاُخْرٰی مِنْہُمَا مَنْسُوْخٌ )) ’’تو ان دونوں میں سے دوسری کا نکاح منسوخ (باطل) ہے۔‘‘ ۲۔ دوسرا نکاح باطل اور حرام ہے فوراً تفریق کرا دینی چاہیے۔ ۳۔ اگر یہ نکاح جہالت، شبہ یا کسی کی پیروی میں کیا گیا ہے تو اس آدمی کی طرف ہی منسوب ہو گی ورنہ نہیں۔ صاحب المغنی نے اس مفہوم کی یوں وضاحت کی ہے مثلاً کوئی آدمی کسی عورت سے عدت کے اندر نکاح کرے تو بالا تفاق یہ نکاح باطل ہے۔ اس کے باوجود سلسلۂ نسب ناکح (نکاح کرنے والے) کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ (فتاویٰ اسلامیہ: ۳/ ۲۴۵) اسی طرح زیر بحث مسئلہ کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ مزید آنکہ نکاح بٹہ اور حالتِ حیض میں عورت سے وطی کرنا حرام ہے لیکن اس سے پیدا شدہ اولاد حلال ہے۔ ۴۔ سابقہ دلائل کی بناء پر اولاد والد کی وراثت کی حقدار ہو گی۔ ۵۔ اگر نکاحِ ثانی عمداً یعنی علم ہونے کے باوجود کیا ہے تو حدّ زنا قائم ہونی چاہیے۔ آدمی کے لیے رجم اور عورت کو سو
Flag Counter