Maktaba Wahhabi

91 - 532
امام طیبی فرماتے ہیں:’’أضـــاء لــہ‘‘(فعلِ)لازم اور ’’مــابیــن الجــمعتین‘‘ظرف بھی ہوسکتا ہے،ایسی صورت میں دونوں جمعوں کے مابین بذات خود روشنی کا ہوجانا مبالغہ کے طور پر ہوگا،اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ فعل متعدی ہو اور اور ظرف مفعول بہ‘‘[1]۔ (17)امام مالک رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اے بیٹے! علماء کی صحبت اختیار کرو اور انکے سامنے زانوے تلمذ تہ کرو،کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت کے نور سے اسی طرح زندگی عطا کرتا ہے جس طرح مردہ زمین کوآسمان کی موسلا دھار بارش سے زندہ کرتا ہے‘‘[2]۔ چنانچہ لقمان حکیم کے قول’’علماء کی صحبت اختیار کرو اور انکے سامنے زانوے تلمذ تہ کرو‘‘ سے زیادتی ٔ قرب مقصود ہے،اور ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت کے نور سے زندگی عطا کرتا ہے ‘‘ یہ علم کا حصول،عمل کی پختگی اور قول وفعل میں درستی کا نام ہے،یعنی دین میں تفقہ پر مشتمل علم،بصیرت کے نفاذ کے ساتھ اللہ کی معرفت،عمل کے لئے حق کی تلاش وجستجو اور باطل سے اعراض‘‘[3]۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سے دلوں کو ایسے ہی زندہ کرتا ہے جس طرح بارش سے زمین کو،اس سے علم نافع اور عمل صالح کی فضیلت اجاگر ہوتی ہے،علم وعمل کی اسی فضیلت کی بنا پر محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایاہے: ’’کچھ لوگ طلب علم اور علماء کی صحبت کو ترک کرکے(نفلی)نمازاور روزے میں لگ گئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض کی جلد خشک ہوکر ہڈی سے چپک گئی،پھر انھوں نے سنت کی مخالفت کی اور ہلاک ہوگئے اور مسلمانوں کا ناحق خون بہایا،اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘ جو کوئی جہالت کی بنیاد پر کوئی عمل کرتا ہے اس کی برائی اچھائی سے زیادہ ہی ہوتی ہے‘‘[4]۔
Flag Counter