Maktaba Wahhabi

167 - 532
کارکردگی بکھرے ہوئے ذرات کی مانند ہے۔ ائمۂ اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اخلاص دل کے اہم ترین اعمال میں سے ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت‘ اللہ پر توکل و اعتماد‘ اس کے لئے اخلاص‘ اس سے ڈرنے اور امید وابستہ کرنے کے لئے دل کے اعمال ہی اصل اور بنیاد ہیں،اور اعضاء و جوارح کے اعمال اس کے تابع ہوتے ہیں کیونکہ نیت کی حیثیت روح کی اور عمل کی حیثیت اعضاء جسمانی کی ہے کہ جب جسم کا رشتہ روح سے ٹوٹتا ہے تو وہ مرجاتا ہے،چنانچہ دلوں کے احکام کی معرفت اعضاء و جوارح کے احکام کی معرفت سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ عز وجل کے لئے مخلص ہو،وہ ریاونمود اور لوگوں کی مدح و ستائش کی خواہش نہ کرے،بلکہ محض اللہ عزوجل کی ذات کا ارادہ کرے،اسی کی خوشنودی کے لئے نیک اعمال انجام دے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ[1]۔ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ نیز ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللّٰهِ[2]۔ اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے رہاہو۔ اخلاص تمام مسلمانوں پر واجب ہونے والا سب سے عظیم وصف(خوبی)ہے،تاکہ وہ اپنی دعوت و عمل سے محض ذات الٰہی اور دار آخرت(جنت)کے طلبگار اور لوگوں کی اصلاح کے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کے خواہاں ہوں[3]۔
Flag Counter