Maktaba Wahhabi

399 - 532
مشروع فرمایا ہے،اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے [1]۔ (2)ناجائز تبرکات میں سے صالحین(نیکوکاروں)سے برکت کا حصول بھی ہے،اس لئے نہ تو ان کی ذاتوں سے برکت کا حصول جائز ہے،اور نہ ہی ان کے آثار سے،نہ ان کی عبادات کی جگہوں سے،نہ ان کی جائے اقامت سے،نہ ان کی قبروں سے،اور نہ ہی ان کی قبروں کی زیارت کی خاطر سفر کرنا جائز ہے،نہ وہاں نمازادا کرنا،نہ حاجات کا سوال کرنا،نہ انہیں چھونا،نہ ہی وہاں اعتکاف کرنا(چمٹ کر بیٹھنا)،اور نہ ہی ان کی تاریخ ولادت سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ ان تمام چیزوں میں سے کچھ بھی بغرض تقرب انجام دینے والا اگر اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ لوگ نقصان پہنچا سکتے ہیں یا نفع پہنچا سکتے ہیں،یا دے سکتے ہیں یا منع کر سکتے ہیں،تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اکبر کا مرتکب ہے،البتہ جو شخص ان کے تبرک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے برکت کا خواہاں ہو تو وہ شخص بھی ایک بدترین قسم کی بدعت کا مرتکب اور ایک گھناؤنے عمل کا شکار ہے [2]۔ (3)ممنوع اور ناجائز تبرکات میں سے پہاڑوں اور دیگر مقامات سے تبرک کا حصول بھی ہے،کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے خلاف ہے،ان پہاڑوں اور جگہوں سے تبرک کے حصول سے ان کی عظمت ثابت ہوتی ہے،اور ان ساری چیزوں کو حجر اسود کو بوسہ دینے یا خانۂ کعبہ کے طواف کرنے پر قیاس کرنا جائز نہیں،کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توقیفی عبادتیں ہیں(جن میں عقل وقیاس کا کوئی دخل نہیں)۔ اور خانۂ کعبہ میں سے بھی سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے اور کسی چیز کا چھونا جائز نہیں،اس لئے کہ باتفاق اہل علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ اور کسی چیز کو نہ چھوا[3]۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’روئے زمین پر حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نہیں جس کا دھونا اور بوسہ دینا مشروع ہو،اور جہاں گناہ مٹائے جاتے ہوں‘‘[4]۔
Flag Counter